بے آواز چیخیں

ہونے والے نشے کے مریضوں کی Relapse بار بار

بے آواز چیخیں
تحریر: ڈاکٹر صداقت علی

صداقت کلینک
(کراچی ،مری، لاہور)

آپ صحرا میں ایک بوڑھے شخص کو دیکھتے ہیں جو نیم برہنہ حالت میں ہاتھ اور پاؤں کے بل جھکا انگلیوں اور پنجوں سے زمین کھودنے کی کوشش کر رہا تھا۔
آپ پوچھتے ہیں‘ “تم کیا کر رہے ہو؟”
“میں ایک دفن خزانہ نکال رہا ہوں” بوڑھا آدمی کہتا ہے۔
“تم کتنی دیر سے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہو؟”
“ہفتوں ‘ شاید مہینوں سے ‘ یہ مشکل اور سست رفتار کام ہے۔ “
آپ بوڑھے شخص کی زخمی انگلیوں اور ہاتھوں پہ پڑی چنڈیوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں “سنو! ہاتھوں سے کھودنا مشکل اور تکلیف دہ طریقہ ہے، یہ گڑھا صرف دو فٹ گہرا ہوگا۔”
آپ اپنے تھیلے سے ایک ہلکا بیلچہ نکال کر زمین کھودنے لگتے ہیں اور پانچ منٹ میں گڑھا کھود کر بوڑھے آدمی پہ ثابت کردیتے ہیں کہ یہ کام کتنی آسانی سے اور جلدی کیا جاسکتا ہے۔
پھر ایک حیرت انگیز واقعہ ہوتا ہے۔ بوڑھے آدمی کی آنکھیں اور چہرا نفرت سے دمکنے لگتا ہے۔ وہ آپ کی طرف بھاگتا ہے اور بیلچہ چھین کر پرے پھینک دیتا ہے ” اپنی اس فضولیات کو لے کر یہاں سے دفع ہوجاؤ۔ میں اپنی تمام زندگی اسی طریقے سے کھودتا آیا ہوں اور میرے لیے یہی ٹھیک ہے۔ اب تم یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ۔”
بہت سے لوگ نشے سے بحالی کو اسی طرح تلاش کر رہے ہوتے ہیں جیسے بوڑھا آدمی خزانے کو‘ حالانکہ اب بحالی میں ا ٓ سانی پیدا کرنے والا علاج اور منصوبہ بندی موجود ہے۔ اس سے آپ کی کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اور تلاش کا کام زیادہ آسان اور پُر لطف ہوجاتا ہے۔
ہمیں امید ہے کہ یہ کتابچہ ریلیپس سے بچاؤ کا اوزار ثابت ہوگا۔ 

کچھ مریض نشہ چھوڑنے کے بعد اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اُن کے اندر خالی پن اور مایوسی بھر جاتی ہے۔ انہیں سلگن بہت تنگ کرتی ہے۔ بظاہر وہ بھلے چنگے نظر آتے ہیں پر اندر سے اُن کا برا حال ہوتا ہے۔ ان کی چیخیں نکل رہی ہوتی ہیں لیکن کوئی سن نہیں پاتا کیونکہ یہ چیخیں بے آواز ہوتی ہیں۔ وہ زخموں سے چور ہوتے ہیں تاہم کوئی بھی یہ زخم دیکھ نہیں سکتا کیونکہ ان زخموں کے منہ باہر نہیں، اندر کی طرف ہوتے ہیں۔

ہم سب نشے کی بربادی سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اپنی فطرت کے لحاظ سے یہ جان لیوا بیماری ہے، تاہم نشہ چھوڑ کر اس بیماری کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ اُن تکلیفوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے جو نشہ چھوڑنے کے بعد ہوتی ہیں۔ تین سو سال سے دنیا میں نشے کی بیماری کا علاج ہو رہا ہے تاہم پچھلے 75 سال میں لاکھوں نشے کے مریضوں نے نشے سے نجات کا معجزہ عام کردیا ہے، خصوصاً پچھلے 35 سال میں امراض قلب اور ذیابیطس کی طرح ایڈکشن کے علاج میں بھی انقلاب آ گیا ہے۔ یہ سب کچھ کہنا اچھا لگتا ہے لیکن اپنی جگہ ایک بہت تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ مریض دوبارہ نشہ شروع کردیتے ہیں۔ بار بار نشہ چھوڑنے اور پھر سے نشہ کرنے کا چکر چلتا رہتا ہے۔اُن کے حالات خراب ہوتے چلے جاتے ہیں، ان میں سے کچھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اُن کے اہل خانہ تلخ یادوں کے ساتھ دکھ سہتے ہیں۔

نشہ کرتے ہوئے سبھی مریض دکھ اٹھاتے ہیں لیکن کچھ مریض نشہ چھوڑنے کے بعد بھی سکھی نہیں ہوتے، سچ پوچھیں تو وہ اور بھی دکھی ہوجاتے ہیں۔ ان کی بیماری ایک نئی شکل اختیار کرلیتی ہے، وہ دوسری قسم کی تکالیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

وہ تکالیف جو کسی شخص میں منشیات کا استعمال ترک کرنے سے پیدا ہوتی ہیں انہیں علامات پسپائی کہتے ہیں۔ یہ تکلیفیں نشے کے گرد گھومنے والے طرز زندگی سے الگ ہونے پر پیدا ہوتی ہیں۔

وہ تکالیف جو کسی شخص میں منشیات کا استعمال ترک کرنے سے پیدا ہوتی ہیں انہیں علامات پسپائی کہتے ہیں۔ یہ تکلیفیں نشے کے گرد گھومنے والے طرز زندگی سے الگ ہونے پر پیدا ہوتی ہیں۔ علامات پسپائی تین ہفتے تک چلتی ہیں اور پھر مدہم ہوتی ہوئی مٹ جاتی ہیں اور راوی چین لکھنے لگتا ہے، زیادہ تر مریض تیزی سے زندگی کی مانگ میں سیندور بھرنے لگتے ہیں۔ بدقسمتی سے چند مریضوں کیلئے نشے سے بغیر زندگی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوتی، اُن میں پھر خالی پن، مایوسی اور ذہنی اذیت ابھر آتی ہے ۔ یہ کیفیت سلگن کہلاتی ہے۔ جن مریضوں کو سلگن تنگ کرتی ہے بظاہر وہ بھلے چنگے نظر آتے ہیں پر اندر سے اُن کا برا حال ہوتا ہے۔ان کی چیخیں نکل رہی ہوتی ہیں لیکن کوئی سن نہیں پاتا کیونکہ یہ چیخیں بے آواز ہوتی ہیں۔ وہ زخموں سے چور ہوتے ہیں تاہم کوئی بھی یہ زخم دیکھ نہیں سکتا کیونکہ ان زخموں کے منہ باہر نہیں، اندر کی طرف ہوتے ہیں۔ ایسے مریض جلد یا بدیر واپس نشہ کرنے کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ ریلیپس کہلاتا ہے۔ ریلیپس کیا بلا ہے؟

ایڈکشن کی دنیا کا ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ریلیپس کو اردو میں ارتداد کہتے ہیں۔ ارتداد کا لفظ مرتد سے نکلا ہے۔ مرتد ایمان لا کر واپس مُکر جانے کو کہتے ہیں۔ یہ بہت تلخ فیصلہ ہوتا ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ کوئی چین سے نہیں رہ سکتا۔اس اذیت ناک حالت میں مریض بہت سی بونگی اور بےتکی حرکتیں کرتا ہے، خود فریبی اپنا جال بننے لگتی ہے۔ ایسے بے چین شخص کو نشے سے نجات دلانا بہت صبرآزما کام ہوتا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے 37 سال (اور میں اب بھی یہ کام کررہا ہوں) اس طرح کے ہزاروں حیرت زدہ اور اذیت میں مبتلا افراد کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے کرتے گزار دیے جو بار بار ریلیپس سے نبردآزما ہوجاتے ہیں۔ ریلیپس کا ڈراپ سین ان مریضوں میں ہونے سے کچھ پہلے علامتیں نظر آتی ہیں جنہیں ریلیپس کی ظاہری نشانیاںکہا جاتا ہے۔ نتیجے میں ریلیپس کی پیش بندی کا یہ پروگرام معرض وجود میں آیا۔ ریلیپس سے بچاؤ کے کچھ طریقے بہت مؤثر ہیں اور ان پر میراایمان بہت مضبوط ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ انمول معلومات آپ کی زندگی بچا سکتی ہیں۔ اگر آپ اس تحریر کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں مشکلات محسوس کریں تو ہر گز ناامید نہ ہوں، ریلیپس سے بچاؤ کی اس حکمت عملی کو بار بار پڑھتے رہیں، آہستہ آہستہ آپ کو سب باتیں سمجھ آنے لگیں گی۔ نشے کی بیماری ایک لاعلاج بیماری ہے لہذا اس میں نشہ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ حوصلہ نہ ہارئے یہ ذرا سمجھنے کی بات ہے

نشے کی بیماری سے جان کھو دینا عام ہے۔ آپ ریلیپس کی پیش بندی کے علاج کو اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ آپ کا پیارا محض اس کوتاہی سے ریلیپس نہ ہوجائے۔ ریلیپس سے بچاو کی پیشگی منصوبہ بندی ایک نیا اور بہت مؤثر طریقہ علاج ہے۔ یہ بہت اہم ہے ہم بار بار ریلیپس ہونے والے مریضوں تک یہ پیغام پہنچائیں کہ ابھی بھی امید کی کرنیں موجود ہیں۔ میرا یقین ہے کہ یہ علم ان مریضوں کو مدد دینے کا ایک بہترین راستہ دکھاتا ہے جنہیں ماضی میں لاعلاج سمجھا جاتا تھا۔

1980 میں جب صداقت کلینک کے دروازے نشے کے مریضوں پر کھلے، چند ہی لوگ جانتے تھے کہ نشے کی بیماری کیا بلا ہے؟ اس سے بھی کم لوگ جانتے تھے کہ نشہ چھوڑنے کے بعد سب کچھ ہرا ہرا نہیں ہوتا، یہاں سے ایک آسان لیکن طویل جدوجہد کا آغاز ہوتاہے۔ جسے نشے سے بحالی کا حسین سفر کہا جاسکتا ہے۔ صداقت کلینک کے جامع علاج سے ان گنت تباہ حال زندگیاں سنبھل گئیں اور سینکڑوں گھر ٹوٹنے سے بچ گئے، زخم مندمل ہوگئے، بے شمار لوگوں کا وقار بحال ہوا۔ یہ سب کچھ تو میرے لئے بہت خوش کن تھا تاہم کچھ مریض جلد ہی ریلیپس ہو جاتے اور لوٹ کر علاج گاہ میں آجاتے۔ کیونکہ وہ نشے سے بحالی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔ وہ اور ان کے اہل خانہ اس بات سے واقف نہ تھے کہ نشے سے نجات کا سفر آدھے اور ادھورے دل سے کیا جائے تو نتیجہ ریلیپس کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ ڈانواڈول بحالی کا شاخسانہ ہوتا ہے۔

1980 میں پاکستان میں اس وقت زیادہ تر ماہرین مجھ سے سینئر تھے اُن کی عمومی سوچ یہی تھی کہ ریلیپس کا رجحان رکھنے والے ان مریضوں سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں، لہذا ایسے مریضوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اُن مریضوں پر توجہ دی جانی چاہیے جو آسانی سے نشہ چھوڑ دیتے ہیں۔ میری طبیعت مریضوں میں ایسے تعصب پر مائل نہ تھی اور ریلیپس کے عادی مریضوں سے بھی امیدیں وابستہ کر لیتا تھا۔ ان کا علاج تکلیف دہ حد تک مشکل ہوتا ہے تاہم میں فوراً ہی سیکھنے لگا۔

پہلی چیز میں نے یہ جانی کہ ریلیپس کا رجحان رکھنے والے مریضوں پر روایتی نفسیاتی طریقے کام نہیں کرتے۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مریضوں میںعلامات پسپائی کا علاج کافی نہیں ان کی دگر گوں ذہنی کیفیات کا علاج بھی ضروری ہے۔ یوں سمجھیں کہ سیلاب کی طرح آگے بڑھتے ریلیپس کے آگے بند باندھنا ایک مقدس جہاد ہے۔

اس زمانے میں علاج کے بعد کچھ مریض تو بہت سنجیدگی اور باقاعدگی سے ریلیپس ہو جاتے تھے۔ سچ پوچھیں تو ان میں سے اکثر ریلیپس نہیں ہوتے تھے بلکہ پورے جوش و جذبے سے ارادتاً دوبارہ نشہ کرلیتے تھے۔

اس وقت صداقت کلینک میں مریضوں کو کھری کھری سنانے کا رواج تھا۔ میں نے جلد ہی سیکھ لیا کہ ریلیپس کا رجحان رکھنے والے مریضوں پرایسا ساس بہو والا انداز کام نہیں کرتا۔ ایسے مریض تو کھری کھری سنانے میں خود چمپئین ہوتے ہیں۔ یہ تجربات بہت تلخ تھے۔ میں نے جلد ہی یہ بھی جان لیا کہ ان کے ساتھ سختی بے فائدہ ہے، یہ تو خود ہی اپنے ساتھ بہت زیادہ تندوترش ہوتے ہیں۔ ان میں خود کو سزا دینے اور ملامت کرنے کا بہت رجحان ہوتا ہے۔ وقت گزرتا رہا اور منظر بدلتا رہا، صداقت کلینک کا پروگرام ایک خوبصورت چشمے کی طرح نکھرتا رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ کامیابی قدم چومتی رہی۔ دو جذبے علاج میں ابھرتے رہے، ایک صبر جو مریضوں نے مجھے سکھایا اور دوسرا اپنے آپ سے پیار جو میں نے انہیں سکھایا۔

ریلیپس کا میلان زہریلی کھمبیوں اور پھپھوندی کی طرح اندھیرے میں پروان چڑھتا ہے۔ واضح اور روشن سوچ ریلیپس کے میلان کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ ریلیپس اور بحالی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ریلیپس کے درد کو سہے بغیر آپ بحالی کا مزہ نہیں چکھ سکتے ۔ریلیپس کا میلان کوئی شرم کی بات نہیں، یہ بحالی کے عمل کا نارمل حصہ ہے۔ ریلیپس کی فکر چھپانے سے یہ میلان پروان چڑھتا ہے۔ ریلیپس سے کھل کر اور ایمانداری سے نپٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بہت سے مریض غلط عقائد یا احتیاطی تدابیر سے لاعلمی کی وجہ سے ریلیپس ہوتے ہیں۔ وہ خود کو ملامت کرتے ہیں، اہل خانہ کو ملامت کرتے ہیں اور معالج کو ملامت کرتے ہیں واپسی میں انہیں بھی ملامت ہی ملتی ہے۔ ملامت کا یہ گورکھ دھندہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں ریلیپس سے بچاؤ پر بہت درد دل سے کام کرتا ہوں تاکہ متاثرہ شخص کے دل میں امید کی شمع جلتی رہے! کالے بادلوں کے کناروں پر بھی چاندی کے تار چمکتے رہیں، سرنگ کے اُس پار دوسر ی جانب روشنی نظر آتی رہے۔ میں نے ریلیپس کی عِلت میں متبلا ان مریضوں کا وفاشعار دوست بننے کا ہنر سیکھا اور ریلیپس کے آگے بند باندھنے میں معالج کا کردار نبھایا۔ میں نے مریضوں کے اہل خانہ کے درد کو بھی سمجھا اور ان کے ساتھ معلومات اور تجاویز کے علاوہ آنسوؤں اور آہوں کو بھی شئیر کیا۔ آخر کار میں انہیں یہ سکھانے میں کامیاب ہوا کہ اہل خانہ ریلیپس کی علت میں دکھتے ، سلگتے مریضوں کے مضبوط ساتھی کیسے بنیں؟

ابتدائی سالوں میں مریضوں کے ساتھ مجھے زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ مایوس ہونے کی بجائے میں نے روایتی طریقے ترک کر کے اصل ماہرین سے دوبارہ سیکھنا شروع کر دیا، اصل ماہرین میری نظر میں یہ مریض ہی تھے۔ علاج کا اہم حصہ مریض اور اہل خانہ سے انفرادی نشست پر مبنی ہے جو کہ تمام کا تمام ریلیپس کی وجوہات تلاش کرنے اور اس سے بچاؤ کی منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

مریضوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ وہ بتائیں وہ آخری بار کب اور کتنا عرصہ نشے کے بغیر رہے؟ مجھے حیرت ہوئی کہ زیادہ تر مریض اپنے حالیہ ریلیپس سے پہلے اپنے مریض ہونے کے قائل نہ تھے اورانہیں کسی باقاعدہ علاج کی ضرورت کا احساس بھی نہ تھا۔ مجھے یہ جان کر بھی تعجب ہوا کہ ان میں سے زیادہ تر نشے سے پاک رہنے کی کوئی شدید خواہش نہیں رکھتے تھے اور وہ کچھ نہ کچھ نشہ کرنے کا حق محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ ان مریضوں کے ساتھ ماضی میں ہر قسم کی کھینچ تان ہو چکی تھی۔ ان میں سے کچھ کے ساتھ بجلی کے جھٹکوں اور تکلیف دہ علاجوں کا تجربہ بھی کیا گیا تھا۔ کچھ کو کئی مہینوں تک تالوں میں بند رکھا گیا تھا۔ ان میں سے کئی کو بہانے سے جیل بھجوایا گیا اور بعض کو پردیس بھی بھیجا گیا، پھر بھی انہوں نے دوبارہ نشہ شروع کر دیا۔

کچھ مریض ایسے بھی تھے جو نشہ چھوڑنے میں مخلص تھے اور قوت ارادی کے بل پر نشہ چھوڑنے کی جان دار کوششیں بھی کرتے رہتے تھے لیکن پھر بھی وہ ریلیپس ہو جاتے تھے۔ ان مریضوں کے ماضی پر گہری نظر ڈالنے کا مقصد یہ تھا کہ میں مرحلہ وار ان باتوں کو ترتیب دے سکوں کہ آخر جو شخص نشہ چھوڑنا چاہتا ہے اور اس بیماری کے بارے میں خاصا علم اور قوت ارادی بھی رکھتا ہے، آخر وہ کیسے دوبارہ نشہ شروع کر دیتا ہے؟ آخر ہیروئن کے مریض خود کو ایک سگریٹ پینے پر کیسے قائل کر لیتے ہیں جبکہ وہ جانتے بھی ہیں کہ یہ ایک سگریٹ انہیں دوبارہ نشے کی دلدل میں دھکیل دے گا۔ ہم نے ان تمام مریضوں کو ایک مضبوط آوٹ ڈور ٹریٹمنٹ پروگرام میں ڈالنا شروع کردیا اور فالو اپ پروگرام سے الگ کر دیا کیونکہ فالو اپ پروگرام اتنی شدت سے بحالی کے پروگرام کا تصور ہرگز نہیں دیتا تھا جتنی اشد ضرورت ان مریضوں کو تھی۔ فالو اپ پروگرام ان مریضوں کیلئے مخصوص کردیا گیا جو ایک ہی چھلانگ میں دلدل کے اُس پار چلے جاتے تھے۔ آؤٹ ٹریٹمینٹ پروگرام ایک طرح ہمارا آئی سی یو قرار پایا جہاں ٹریٹمینٹ کا مطلب ٹریٹمینٹ ہی تھا۔

ریلیپس کی علت میں مبتلا مریضوں میں بہت سی باتیں مشترکہ ہیں۔ یہ بات میں نے مریضوں سے تبادلہ خیالات کے بعد جانی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اکثر لوگ ایک طرح کی گدلی اور میلی سوچیں، جذباتی رد عمل، خاص حرکات و سکنات اور حالات سے گزرتے ہوئے ریلیپس ہوتے ہیں۔ وقت گزرتا گیا، سیکھنے کا عمل تیز ہوتا گیا۔ یوں ایک مختصر اور مؤثر پروگرام سامنے آیا جسےHALT کا نام دیا گیا۔ یہ پروگرام آغاز سے ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کرتا ہے اور مریض کو ارتداد کی گہری کھائی میں اترنے سے بچا لیتا ہے۔

کچھ ہی سالوں میں نشے کے علاج کے حوالے سے سینئر ماہرین نفسیات کا شوق ماند پڑ گیا اور انہوں نے نشے کے مریضوں سے نہ صرف ہاتھ کھینچ لیا بلکہ فتویٰ دے دیا کہ ’’نشے کے مریض سدھر نہیں سکتے۔‘‘ اپنی شکست ماننا ماہرین کیلئے بھی مشکل ہوتا ہے تاہم صداقت کلینک سے منسلک ہر شخص میں احساس ذمہ داری بڑھ گیا۔ صداقت کلینک نے آغاز سے ہی ریلیپس کو علاج کی کمزوری گردانا اور کسی ایسے ’’پروگرام‘‘ کی تلاش شروع کر دی جس سے ہم اور ہمارے مریض سرخرو ہو سکیں۔ ہم نے منشیات کے مریضوں کی بحالی کیلئے ایک روایتی مرکز کا آغاز کیا تھا لیکن جلد ہی ہماری توجہ صرف ریلیپس پر مرکوز ہو کر رہ گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ریلیپس ہماری چھیڑ بن گیا۔ ہمیں مریضوں کے نشہ نہ چھوڑنے پر طعنے دئیے جاتے! 1980 میں طبی حلقوں میں علاج منشیات کو زیادہ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تاہم ہماری تمنا تھی کہ ماہرین امراض قلب اور سرجنوں کی طرح ہمیں بھی ممتاز ڈاکٹر سمجھا جائے۔ ہمارے مریضوں کے گھروں میں بھی ہماری عزت اور وقار زیادہ نہ تھا۔ دراصل خود ہمارے مریضوں کا اپنے گھروں میں کوئی وقار نہ تھا تو ہمارا کیسے ہوتا؟ یہ بات ہمارے لئے کافی تحریک کا باعث تھی کہ کچھ کر گزریں!

ہم نے اپنے علاج کا مرکزی نکتہ ریلیپس سے بچاؤ کو بنایا۔ ہم نے ان غلط عقیدوں اور نقصان دہ رویوں کو بھی پہچاننا شروع کر دیا جو ریلیپس کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔ ہم انتہائی نرم انداز میں مریضوں پر اثر انداز ہونا سیکھ رہے تھے۔ ہم نے مریضوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ ایک طرف وہ تھے جو علاج میں سے گزرنے کے بعد تیزی سے آگے بڑھتے تھے اور دوسرے وہ جو نشہ چھوڑتے ہی گلی سڑی سوچوں میں ڈوب جاتے تھے اور واپس نشے میں لے جانے والی اذیت کی گھاٹیوں پر پھسلنا شروع کر دیتے۔

پہلی قسم وہ تھی جنہیں بحالی ایک انمول تحفے کی طرح پلیٹ میں پڑی مل جاتی تھی اور دوسری قسم وہ جنہیں نشے سے آزادی کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جنہیں ریلیپس سے بچنے کیلئے جہاد کرنے کی ضرورت تھی لیکن وہ اس کیلئے تیار نہ تھے۔ وہ اس قیمت پر نشہ چھوڑنے کا ذوق و شوق نہ رکھتے تھے اور دوسری طرف وہ تھے جنہیں خدا چھپڑ پھاڑ کر دے رہا تھااور وہ نشہ چھوڑ کر بھر پور زندگی گزار رہے تھے۔

جن مریضوں میں ایک بڑی جدوجہد کا عنصر کم نظر آیا، انہیں دوبارہ نشہ کرنے سے پہلے ہی ہم نے ان ڈور ٹریٹمنٹ برائے پری وینشن کا مشورہ دینا شروع کر دیا۔ نشہ کئے بغیر پھر سے ان ڈور ٹریٹمینٹ میں آنا انہیں عجیب لگتا تھا جیسے کہ ’’جرم‘‘ کا ارتکاب کیے بغیر ’’سزا‘‘ کا تصور ۔ جلد ہی اس کے فوائد سامنے آنے لگے۔ جو مریض ان ڈور ٹریٹمینٹ برائے ریلیپس پری وینشن کیلئے راضی نہ ہوتے انہیں این اے کے ڈھانچے میں زیادہ شدت سے ایڈجسٹ ہونے کی تجویز دی جاتی۔این اے پروگرام میں ریلیپس سے بچاؤ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن این اے پروگرام میں مریض کا گھیراؤ ’’اس درجے کا نہیں ہوتا جتنا کہ کسی ریلیپس کی گھاٹی پر لڑھکتے ہوئے مریض کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ جدوجہد جاری رہی جلد ہی ہم نے یہ جانا کہ ریلیپس سے بچاؤ کا طریقہ علاج اختیار کرنے کے بعد ان مریضوں کو افاقہ ہوتا ہے اور نشے کے بغیر وقفے زیادہ لمبے ہوکر سامنے آنے لگتے ہیں۔ اگروہ منشیات کا استعمال دوبارہ شروع کر بھی دیتے توان کے ریلیپس کا عرصہ مختصر ہوتا اور ریلیپس کے برے نتائج نسبتاً کم ہوتے اور وہ دوبارہ علاج میں آنے کے خواہش مند نظر آتے۔ ہم امید اور گرم جوشی محسوس کرنے لگے۔

1991 میں امریکہ کے سفیر مسٹر نکولس پلاٹ کی خصوصی دعوت پر مجھے امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے کا موقع ملا جس میں میرا نشے کی بیماری کی بہترین علاج گاہوں میں ٹریننگ اور قیام بھی شامل تھا۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ امریکہ میں گلی گلی روزانہ این اے میٹنگ کے نام پر ان مریضوں کے اجتماع ہوتے ہیں جو نشے سے بحالی پا چکے ہوتے ہیں۔ این اے میٹنگ اوراین اے پروگرام نشے سے بحالی کے خاص اجزا ہیں۔ اس دورے نے میری پیشہ ورانہ زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ جہاں ملکی ماہرین نفسیات مجھے گھاس نہیں ڈال رہے تھے وہاں اس طرح کی بین الاقوامی پذیرائی سے صداقت کلینک کے معیاری علاج گاہ بننے کی راہ ہموار ہوگئی۔ اسی سال مجھے امریکہ کی بین الاقوامی شہرت کی حامل علاج گاہ ’’ہیزلڈن‘‘ میں ٹریننگ کا موقع ملا۔ اس ٹریننگ نے مجھے صحیح معنوں میں نشے کے مریضوں کی خدمت کے قابل بنایا۔

مجھے اور میری وننگ ٹیم کو امید ہے کہ یہاں دی گئی معلومات آپ کو ان ہزاروں مریضوں کے تجربات سے روشناس کرائیں گی جنہوں نے براہ راست یا بلاواسطہ اس طریقہ علاج کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔ یہ آپ تک اپنا تجربہ اور امید پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ہم آپ کے ہمراہ ایک مہم جوئی کا آغاز کررہے ہیں، ایک ایسی مہم جوئی جو آپ کو ریلیپس سے بچاؤ کے علم سے متعارف کرائے گا۔ اس علم کو جاننے اور جمع کرنے میں ہمیں 37 برس لگے۔ یہاں ایسی اہم معلومات ہیں جو زندگی اور موت کے درمیان فرق کا باعث بنتی ہیں اور ایک واضح لکیر کھینچ دیتی ہیں۔

بہت سے مریض غلط عقائد یا احتیاطی تدابیر سے لاعلمی کی وجہ سے ریلیپس ہوتے ہیں۔ وہ ریلیپس کے لیے خود کو ملامت کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے کیونکہ ریلیپس سے بچنے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے دل میں امید کی شمع جلتی رہے! اور ہم انہیں بحالی میں مدد دینا چاہتے ہیں۔ پورا کتابچہ ایسے ہی بے چین بندوں کو حوصلہ دیتا ہے۔

کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ محض نشے سے پرہیز کرتے رہیں تو انہیں ریلیپس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ بحالی محض نشہ چھوڑنے کا نام نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ نشہ نہیں کرتے لیکن وہ سوبر نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کو ریلیپس کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔

ریلیپس کے کئی پہلو ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ ہم آپ کو بتانا چاہ رہے ہیں، اسے اچھی طرح سمجھنے کیلئے آپ کو شاید یہ کتابچہ کئی دفعہ پڑھنا پڑے۔ ایسا کرنے سے ہی آپ ان باتوں پر عمل کر سکیں۔

جن حالات میں کوئی ریلیپس ہوتا ہے، ان کو سمجھے بغیر ریلیپس کے پروسیس کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اگرچہ ریلیپس سے متعلق زیادہ تر تحقیق ہیروئن اور شراب کے نشے کے مریضوں پر کی گئی ہے لیکن بہت سی شہادتیں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ریلیپس سے بچاؤ کے یہی طریقے دوسری منشیات کے لیے بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے اس کتابچے میں ہم زیادہ تر کسی خاص نشے کا ذکر کیے بغیر محض لفظ “نشہ” استعمال کریں گے۔

ریلیپس کو سمجھنے اور اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بحالی کے عمل کو سمجھ لیں اور یہ بھی سمجھ لیں ادھوری بحالی کیا ہوتی ہے؟ ہم بحالی کے پورے عمل کو بیان کریں گے اور دیکھیں گے کہ بعض اوقات بحالی مکمل ہونے سے پہلے رک کیوں جاتی ہے؟

ہم ریلیپس کے بارے میں غلط فہمیوں کا بھی جائزہ لیں گے۔ یہ غلط عقیدے ریلیپس کے خطرات کو بڑھا دیتے ہیں اور انہیں بدلنے سے ریلیپس سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

اکثر سمجھا جاتا ہے کہ جو مریض علاج کے بعد دوبارہ نشہ شروع کردے وہ ریلیپس کہلائے گا۔ یہ بات درست نہیں۔ بہت سے مریض ارادتاً دوبارہ نشہ کرتے ہیں۔ ریلیپس تو اسی صورت کہا جائے گا جبکہ مریض اچھی طرح یہ بات سمجھ جائے کہ وہ اب محفوظ طریقے سے دوبارہ نشہ نہیں کرسکتا اور نشے کے استعمال سے اس کی زندگی برباد ہوگی، پھر وہ بحالی کی منصوبہ بندی سیکھے اور اس پر عمل پیرا ہو اور پھر بھی نشے سے دور رہنے میں ناکام ہو۔ ریلیپس کہلانے کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم قوت ارادی کا کچھ استعمال تو کیا جائے۔

بہت سے لوگ جب “ریلیپس” کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ نشہ کر لینے کے فعل کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ بے شک نشے کا استعمال ریلیپس ہے لیکن تازہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریلیپس کا پراسیس نشے کے استعمال سے بیشتر ہی شروع ہوجاتا ہے۔ نشے کے استعمال سے پہلے ہی بگاڑ شروع ہوچکا ہوتا ہے۔ انہیں اپنے فیصلوں اور رویوں پہ کنٹرول نہیں رہتا اور انہیں جذباتی یا جسمانی مسائل پیش آتے ہیں۔

ریلیپس کا سفر بحالی کی مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر بحالی میںآپ کو کوئی مشکل پیش آتی ہے یا آپ کوئی تکلیف محسوس کرتے رہے ہیں تو آپ ریلیپس ہو رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ اگر عمومی طور پر آپ وہ چیزیں نہیں کر رہے جو بحالی کے لیے ضروری ہیں تو آپ لاشعوری طور پر ریلیکس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ ادھوری بحالی میں پھنس گئے ہیں تو آپ کو ریلیپس کا انتہائی خطرہ ہے۔

نشے کی بیماری سے بحالی تب شروع ہوتی ہے جب آپ تسلیم کرنے لگتے ہیں کہ آپ محفوظ طریقے سے منشیات استعمال نہیں کرسکتے۔ لیکن صرف یہ جاننا کافی نہیں ہے کہ منشیات نقصان دہ ہیں، آپ کو ان کے استعمال کو بھی لازمی بند کرنا ہوگا۔ نشے سے پرہیز صرف بحالی کے عمل کا آغاز کرتا ہے، یہ خوشحال زندگی کا مقصد حاصل کرنے کے لیے محض ایک ذریعہ ہے۔ نشہ چھوڑ کر خوش و خرم زندگی گزارنے کا خواب نشے کے پرہیز سے کچھ زیادہ مانگتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ نشے سے پہنچنے والے جسمانی، نفسیاتی اور سماجی نقصانات کو درست کیا جائے، تاہم یہ اور بھی ضروری ہے کہ نشے سے پہنچنے والے جسمانی، نفسیاتی اور سماجی نقصانات کو درست کیا جائے، تاہم یہ اور بھی ضروری ہے کہ ناصرف آپ نشے کے بغیر خوش و خرم رہنا بلکہ اپنے مسائل حل کرنا بھی سیکھ لیں۔ 

ریلیپس اور بحالی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ریلیپس کے میلان کو محسوس کیے بغیر آپ بحالی کا مزہ بھی نہیں چکھ سکتے۔ ریلیپس کا میلان کوئی شرم کی بات نہیں، یہ بحالی کے عمل کا نارمل حصہ ہے۔ چونکہ چھپانے سے یہ پروان چڑھتا ہے اس لیے اس سے کھل کر اور ایمانداری سے نپٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریلیپس کا میلان زہریلی کھمبیوں اور پھپھوندی کی طرح اندھیری میں پروان چڑھتا ہے ۔ واضح اور روشن سوچ ریلیپس کے میلان کا قلع قمع کر دیتی ہے۔

اگر ہم ریلیپس کے انتباہ کی ان علامات کو جن میں سے ہم گزر رہے ہوتے ہیں اپنے شعور میں لے آئیں تو ہم ریلیپس کے اس گورکھ دھندے کو خطرناک نتائج پیدا ہونے سے پہلے ہی روک سکتے ہیں۔ ریلیپس سے بچاؤ کی منصوبہ بندی اسی طرح ممکن ہے۔ اس کتابچے کے آخری حصے میں ہم ریلیپس سے بچاؤ کی منصوبہ بندی تفصیل سے پیش کریں گے۔

منشیات ان ادویات کو کہتے ہیں جو ذہن میں کیمیاوی تبدیلیاں لا کر موڈ، مزاج اور کارکردگی کو بدل دیتی ہیں۔ تمام منشیات یہ طاقت رکھتی ہیں کہ سوچ کو بدل دیں، ذہن کو نقصان پہنچائیں، جسم، برتاؤ اور تعلقات کو متاثر کریں، بشرطیکہ انہیں نشے کی بیماری میں استعمال کیا جا رہا ہو۔

ہم نشہ آوار ادویات کو چار گروپوں میں تقسیم کرسکتے ہیں

سست کرنے والی مثلاً شراب اور خواب آور گولیاں
چست کرنے والی مثلاً کیفین، نکوٹین، کوکین اور ایمفیٹامین
درد مٹانے والی مثلاً افیم ، مارفین، ہیروئن، ساسیگون وغیرہ اور
سوچوں کا رخ موڑنے والی منشیات مثلاًچرس، ایل ایس ڈی اور پی سی پی وغیرہ 

نشہ جسم اور دماغ پر کیا اثر ڈالتا ہے؟

اگر جسم نشے کو زہریلا نہ بنائے تو نشے جسم پر کوئی برا اثر نہیں ڈالتے۔ نشے کی بیماری میں جسم خود نشے کو زہریلے مادوں میں تبدیل کردیتا ہے اور پھر یہ زہریلے مادے جسم اور دماغ پر زبردست تباہی مسلط کرتے ہیں۔ نشے کی بیماری میں تمام نشے تباہ کن ہیں، فرق صرف مدت کا ہے۔ چرس دماغی توازن خراب کرتی ہے، شراب سلو پوائزنگ کرتی ہے اور ہیروئن تو دیکھتے ہی دیکھتے انسان کو سایہ بنا دیتی ہے۔ نشے کا مریض تحفظ کے ساتھ کوئی بھی نشہ نہیں کر سکتا۔

ریلیپس کو سمجھنے سے پیشتر ضروری ہے کہ آپ نشے کی بیماری کو سمجھیں۔ اکثر لوگ نشہ چھوڑنے میں اس لیے ناکام ہوجاتے ہیں۔ چونکہ وہ نشے کی بیماری کو نہیں سمجھتے، لہذا وہ ریلیپس سے بچانے والے خاص قدم نہیں اٹھاتے۔ غیر معیاری علاج بھی ریلیپس کا باعث بنتا ہے۔
عام حالات میں نشہ کرنا یا نہ کرنا آپ کی مرضی پر ہوتا ہے۔ نشے کی بیماری میں نشہ نہ کرنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ نشے کی بیماری ایک ایسی حالت ہے جس میں کسی شخص کی اپنی مرضی سلب ہوجاتی ہے کہ وہ کیسے نشہ کرے؟ کتنا نشہ کرے؟ اور کتنی بار کرے؟ نشے کی بیماری نشے کے استعمال سے شروع ہوتی ہے لیکن ہر ایک کے لیے نشے کا استعمال نشے کی بیماری پہ اختتام پذیر نہیں ہوتا۔

نشے کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟ نشے کی عادت کیسے پڑتی ہے؟

نشے کا آغاز زیادہ تر نشہ کرنے والوں کی صحبت میں ہوتا ہے۔ ہاں! ان کی صحبت میں جانے کی وجوہات بہت ہیں۔ یہیں نشے کی دعوت ملتی ہے جو آخر کار قبول کر لی جاتی ہے۔ پھر اس کی عادت پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات ڈاکٹر نشے کی کوئی دوا وقتی طور پر تجویز کرتے ہیں جسے مریض مستقل استعمال کرنے لگتے ہیں۔ نشے کی عادت کبھی کبھی نشے کی بیماری میں بدل جاتی ہے۔

انسان منشیات کو وقتی تسکین کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن کبھی کبھی اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ نشہ کی بیماری میں ناصرف ہر وقت نشہ کرنے کا خبط رہتا ہے بلکہ حرکتوں اور نشے کے استعمال پر قابو نہیں رہتا۔ نشے کا مریض نشے سے پیداشدہ تکلیف کو دور کرنے کے لیے نشہ کرتا ہے۔ یوں مسلسل نشے کا استعمال نشے کے مسلسل استعمال کو جنم دیتا ہے۔ یہی نشے کی بیماری ہے۔ 

آپ نشے کی بیماری کو دائمی جسمانی بیماریوں کی صف میں شامل کر سکتے ہیں جیسے ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل کے امراض وغیرہ۔ ان بیماریوں کی وجہ سے لمبے عرصے تک جسمانی، نفسیاتی اور سماجی نقصانات پہنچتے ہیں۔ نشے کی بیماری جسم میں شروع ہوتی ہے تاہم ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اسے بیماری ماننے والوں میں بھی ان لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس بیماری کی بنیادی وجہ نفسیاتی ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت نشے کی بیماری کو ایک بیماری تسلیم کرتا ہے۔ ماضی قریب میں نشے کی بیماری کو نفسیاتی یا اخلاقی مسئلہ سمجھا جاتاتھا۔

تاہم پاکستان میں نشے کی بیماری کو ایک بنیادی جسمانی بیماری کے طور پر شہرت دینے میں صداقت کلینک نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ صداقت کلینک نے پر زور طریقے سے یہ موقف اختیار کیا کہ نشے کی بیماری نفسیاتی پریشانیوں یا حساس ہونے کی وجہ سے جنم نہیں لیتی۔ جو شخص نشے کا مریض بنتا ہے دراصل اس کا جسم مریض نہ بننے والے شخص سے مختلف ہوتا ہے۔ نشے کے مریض کا جسم نشے کو “ہضم” نہیں کرسکتا۔ نشے کی بیماری کی ابتداء جسم میں ہوتی ہے، لیکن بعد ازاںیہ کسی شخص کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے، اسی لیے ہم نشے کی بیماری کو جسمانی، نفسیاتی اور سماجی بیماری کہتے ہیں۔ جسمانی سے مراد جسم سے تعلق رکھنے والی، نفسیاتی سے مراد ذہن کو متاثر کرنے والی اور سماجی سے مراد لوگوں کے تعلقات پر اثر انداز ہونے والی ہے۔ نشے کی بیماری اسی ترتیب سے آگے بڑھتی ہے۔

ضروری نہیں کہ وہ لوگ جن میں نشے کی بیماری کے موروثی رجحانات پائے جاتے ہیں نشے کے مریض بنیں، کسی شخص کے لیے منشیات کا مریض بننے کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کا استعمال بھی کرے۔ کوئی شخص نشے کے استعمال کے کتنے عرصے بعد مریض بن سکتا ہے اس کا دارومدار اس شخص کے جسم اور نشے پر ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں میں جلد ہی نشے کی بیماری شروع ہوجاتی ہے اور کچھ لوگوں میں بیمار ہونے کے لیے بہت مدت تک نشے کا استعمال ضروری ہوتا ہے۔

جمشید نے 19 سال کی عمر میں شراب پینی شروع کی۔ اس نے پہلی دفعہ ہی اپنے ارادے سے زیادہ شراب پی لی اور دھت ہوگیا۔ وہ پینے کی وجہ سے مصیبت میں پھنس گیا۔ جمشید نے کسی دن بھی نارمل طریقے سے شراب نہیں پی۔ 26 سال کی عمر میں یعنی شراب شروع کرنے کے سات سال بعد ہی جمشید شراب کے نشے کی شدید علالت کے باعث ہسپتال میں تھا۔ بعد میں گروپ میں بات کرتے ہوئے اس نے خود کو “انسٹینٹ شرابی” قرار دیا۔ 

دوسری طرف جاوید نے بھی 19 سال ہی کی عمر میں شراب پینی شروع کی تھی۔ وہ شاید ہی کبھی دھت ہوا ہو۔ اسے مہ نوشی سے خاطر خواہ مسائل 34 سال کی عمر میں محسوس ہوئے۔ تاہم 46 سال کی عمر تک شراب نے اس کی زندگی میں بحران پیدا نہیں کیے تھے۔ جاوید بظاہر 15 سال تک نارمل طریقے سے شراب پیتا رہا تب کہیں جا کر شراب کی بیماری کے آثار پیدا ہوئے۔

نشے کی بیماری کیسے ہوتی ہے؟

جو لوگ نشہ کرتے ہیں انہی میں سے کچھ لوگ اتفاقاً نشے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کا جسم ایک موروثی نقص کی وجہ سے نشے کو ضائع اور زہریلا کرنے لگتا ہے۔ پھر انہیں نشہ نہیں ہوتا، الٹا جسم گھائل ہوجاتا ہے۔

لوگ منشیات نفسیاتی اور سماجی وجوہات کی بنا پر شروع کرتے ہیں۔ تاہم لوگ محض جسمانی وجوہات کی بنا پر نشے کے مریض بنتے ہیں۔ ان میں برداشت پیدا ہونے لگتی ہے، یعنی خاص اثر کے لیے انہیں زیادہ نشہ لینا پڑتا ہے۔ جسم کے خلیے نشے کی زیادہ مقدار کے مطابق ڈھل جاتے ہیں اور اب ان کی نارمل کارکردگی کے لیے نشے کی موجودگی ضروری ہوجاتی ہے۔ اسے انحصار کہتے ہیں۔ جسم نشے کی ضرورت محسوس کرنے لگتا ہے، نشے کا نہ ہونا جسمانی تکلیفوں کا باعث بنتا ہے، بے آرامی اور بیماری کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اسے ود ڈرال کہتے ہیں۔

نشے کا مریض کون ہوتا ہے؟

نشے کا مریض اس بیمار انسان کو کہتے ہیں جس کا جسم نشے کے استعمال کے لیے ان فٹ ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی وہ نشہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ذیابیطس میں مریض کا جسم چینی استعمال کرنے کے لیے ان فٹ ہوجاتا ہے لیکن وہ اکثر اس کے استعمال سے باز نہیں آتا۔ نشے کا مریض وہ ہے جو بذات خود نشے سے رک نہ سکے اور اگر اسے روک دیا جائے تو بے چین و پژمردہ رہے اور جسمانی تکلیفوں میں مبتلا ہوجائے۔

لوگ اچھا محسوس کرنے کے لیے جتنا زیادہ نشہ استعمال کرتے ہیں، موثر انداز سے اپنے احساسات، حالات اور لوگوں سے نپٹنے کی صلاحیتیں اتنی ہی زنگ آلود ہوجاتی ہیں۔ یا تو وہ ایسی ہنرمندی سیکھ ہی نہیں پاتے یا وہ حالات سے نپٹنے کے دوسرے طریقے استعمال کرنا بھول جاتے ہیں۔ ان کا نشے پہ انحصار جسمانی، نفسیاتی اور سماجی طور پہ ہوجاتا ہے۔ زندگی کے تمام پہلو متاثر ہونے لگتے ہیں۔

منشیات کے مریض میں نشے کی خاص علامتیں کچھ اس طرح ظاہر ہوتی ہیں کہ ان کے بارے میں پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ یہ علامات تین مرحلوں میں بڑھتی ہیں۔ شروع کے مرحلے میں نشے کے شغل اور نشے کی بیماری میں فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ظاہری علامات بہت تھوڑی ہوتی ہیں تاہم جسم نشے کے استعمال کی وجہ سے روزانہ بدل رہا ہوتا ہے۔

وہ تکلیفیں جو کسی شخص میں منشیات کا استعامل ترک کرنے کے بعد فوری طور پر پیدا ہوتی ہیں انہیں ودڈرال کہتے ہیں۔ ودڈرال جسم کے عادی ہونے، ذہن کے متاثر ہونے، نشے کی بیماری کے گرد گھومنے والے طرز زندگی سے جدا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ودڈرال تین سے دس دن تک چلتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد ہلکی پھلکی جسمانی تکلیفیں اور ذہنی اذیت نمودار ہوتی ہیں اور غیر معینہ مدت تک چلتی رہتی ہیں۔ یہ کیفیت سلگن کہلاتی ہیں۔

جیسے جیسے جگر اور اعصابی نظام کے خلیے نشے کی زیادہ مقدار کو برداشت کرتے کرتے ڈھیٹ ہوتے چلے جاتے ہیں ویسے ویسے وہی مزہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں نشے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے۔ ابتداء میں بیماری کی بڑی علامت نشے کی زیادہ مقدار برداشت کرنا ہے۔ جبکہ مریض اس پر فخر کرتے ہیں۔ چونکہ بیماری کی دیگر علامات نشے میں چھپی ہوتی ہیں، خود مریضوں کے لیے یہ پہچانناکہ وہ نشے کے مریض ہیں، مشکل ہوتا ہے۔ یہ چیز تشخیص کو مشکل بنا دیتی ہے۔
جاوید نے جب علاج شروع کیا تو وہ حیران رہ گیا۔ “مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں کس قدر بیمار تھا” جاوید نے کہا “میرا مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ یہ تبدیلیاں اتنی آہستہ آہستہ ہو رہی تھیں کہ مجھے کبھی احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ میرا ہیروئن کا استعمال کس قدر تباہ کن ہوگیا ہے”۔

نشے کی بیماری کا درمیانی مرحلہ، آہستہ آہستہ کنٹرول کھو دینے پر مبنی ہے۔ اس مرحلے میں کوئی شخص مدہوشی اور دیگر مسائل پیدا کیے بغیر نشہ کی وہ مقداریں استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا جو وہ پہلے محفوظ طریقے سے استعمال کر لیتا تھا۔ نشہ استعمال نہ کرنے پہ اسے تکلیف ہوتی ہے اور اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے نشہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کام، صحت، ازدواجی زندگی، قانونی معاملات، غرض ہر شعبہ زندگی میں مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔

نشے کی بیماری کا دائمی مرحلہ زبردست جسمانی، نفسیاتی، سماجی اور روحانی بگاڑ پہ مبنی ہے۔ تمام جسمانی نظام اس مرحلے پہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ دماغ، جگر، دل، نظام انہضام اکثر متاثر ہوتے ہیں۔ مزاج کا اتار چڑھاؤ بھی اس مرحلے پہ بہت عام ہوتا ہے۔ جوں جوں زندگی زیادہ سے زیادہ نشے کے گرد گھومنے لگتی ہے توں توں اس شخص کا رویوں اور عمل پہ کنٹرول کم ہوتا جاتا ہے۔ وہ کام جو نشہ کرنے میں مخل ہوتے ہیں وہ انہیں چھوڑتا چلا جاتا ہے۔

نشہ کرنے کی تیاری کرنا، نشہ کرنا، نڈھال ہونا اور ہوش میں آنے کا انتظار نشے کے مریضوں کی زندگی کے معمولات بن جاتے ہیں۔ وہ وعدے توڑتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں اور تمام چیزیں جو انہیں مزید نشہ کرنے کے “قابل” بنا سکیں وہ کرتے ہیں۔ نشے کی تلاش میں رہنا طرزِ زندگی بن جاتا ہے۔
اوپر ہم نے نشے کے ایک منحوس چکر کو بیان کیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ کس طرح لوگ اس منحوس چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ شروع میں وہ نشہ استعمال کرکے اچھا محسوس کرتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ نشہ اچھا ہے۔ وقتی تسکین آخر کار مستقل تکلیف اور معذوری میں ڈھل جاتی ہے۔

بہت سے لوگ جب نشے کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ نشے کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف اور بربادی پر غور کرتے ہیں لیکن نشہ چھوڑ دینے پر جو تکلیفیں ابھر کر سامنے آتی ہیں انہیں دیکھ کر وہ حیران وششدر رہ جاتے ہیں۔ سلگن جسمانی، نفسیاتی اور سماجی علامات پر مبنی اِک گورکھ دھندہ ہے۔ یہ عجیب و غریب تکالیف خود مریض کیلئے سمجھنا اور بیان کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس کیفیت میں مریض کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے۔ مریض کو ایک انوکھا مایوسی بھرا خالی پن، ذہنی دباؤ، شکستگی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس دوران مریض کی ذہنی حالت دگرگوں ہو جاتی ہے۔ فضا میں اِک پریشانی سی بکھری نظرآتی ہے اور ذہن سڑی ہوئی سوچوں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔ توانائی کی کمی اور ہمت کا ٹوٹ جانا مریض کو نشے کی شدید یاد دلاتا ہے۔ خود فریبی اپنے عروج پر ہوتی ہے اور زندگی گزارنا بوجھل و دشوار نظر آتا ہے۔ اس حالت کو سلگن کہتے ہیں ۔ سلگن کی علامات وہ ہیں جو نشے سے پرہیز اور ودڈرال ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ظاہر ہوتی ہیں۔ عام طور پر یہ علامات نشہ چھوڑنے کے دو تین ماہ بعد ظاہر ہوتی ہیں۔

سلگن کی علامات

اگر کوئی علاج نہ کیا جائے تو سلگن کی علامات بڑھتی چلی جاتی ہیں، تاہم اس میں خوف زدہ ہونے کی کوئی بات نہیں، مناسب علاج سے یہ بگاڑ درست ہو جاتا ہے۔ جیسے ابتدائی طور پر مریض کو نشے سے نجات دلانے کیلئے مؤثر علاج فراہم کیا جاتا ہے اسی طرح سلگن کی دلدل میں پھنسے ہوئے مریض کو بھی اچھے معالج، اہل خانہ کی محبت و تعاون اور این اے پروگرام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ان علامات کی شدت تو کچھ ہی عرصے بعد ختم ہو جاتی ہے لیکن بہترین علاج کے باوجود کچھ ’تخ تخی‘‘ لگی رہتی ہے۔ علامتیں چھوٹی موٹی شکل میں چلتی رہتی ہیں جیسے کہ یاداشت کی خرابی، چیزوں کو سمجھنے اور سلجھانے میں دشواری، نیند کی مشکلات اور جسمانی کمزوری۔ یہاں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ انہیں عارضی سمجھا جائے اور صبر کے ساتھ وقت کو گزرنے دیا جائے۔ لازم ہے کہ اس دوران کسی بھی نشے سے پرہیز کیا جائے اور تکالیف کے ازالے کیلئے صرف ان دواؤں پر بھروسہ کیا جائے جو معالج تجویز کرے۔ بحالی کے کسی معقول پروگرام میں مدد ملتی رہے تو مکمل ٹھیک ہونے میں تقریباً چھ ماہ سے زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے۔ کیسے معلوم ہو کہ آپ سلگن کا شکار ہیں؟ سلگن کی بڑی علامتیں یہ ہیں

 سوچنے میں الجھن

حافظے کی کمزوری

جذباتی ردعمل یا بے حسی

بے خوابی

توازن قائم رکھنے میں دشواری

دباؤ اور شکستگی

آئیں! سلگن کی اُن علامات کا جائزہ لیں جو کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں۔ایک بہت عام علامت ہے کہ چند منٹوں سے زیادہ توجہ نہ دے سکنا ہے۔ آپ اپنے خیالوں کو ترتیب نہیں دے سکتے، ایک ہی خیال بار بار آپ کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے اور آپ اس چکر سے باہر نہیں نکل پاتے۔ حالیہ چیزوں کو یاد رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ کوئی آپ کو ہدایت دیتا ہے اور آپ کو پتا ہوتا ہے کہ کیا کرنا ہے لیکن آپ کچھ اور کرنے لگتے ہیں اور اس ہدایت کے متعلق آپ کی یادداشت دھندلی ہو جاتی ہے یا ذہن سے یہ بات بالکل نکل ہی جاتی ہے۔

فرخ کہتا ہے ’’مجھے این اے میں اپنی کہانی سنانے میں مشکل پیش آئی‘‘ اس نے کہا ’’ان چیزوں کی بات تو رہنے دیں جو نشے کے دوران پیش آئیں تھیں، مجھے وہ واقعات یاد کرنے میں بھی مشکل ہوئی جو میرے نشہ کرنے سے پہلے کے تھے۔ مجھے احساس تھا کہ کچھ چیزیں ہوئیں ہیں لیکن میں الجھن کا شکار تھا کہ یہ چیزیں کب پیش آئیں تھیں۔ کئی دفعہ جب میں اکیلا ہوتا اور کوئی دباؤ نہ ہوتا یہ باتیں یاد آتیں لیکن جب این اے میٹنگ میں دباؤ کا شکار ہوتا تو یہ یاد کرنا مشکل ہوتا‘‘۔

اس مسلئے کا شکار لوگ ایک ذرا سی بات پر بھڑک اُٹھتے ہیں۔ بعض اوقات غصہ اتارنے کے بعد خیال آتا ہے کہ بات تو بہت معمولی تھی۔ جب شدید ردعمل آپ کے اعصابی نظام پر دباؤ ڈالتا ہے تو پھر جذباتی لوڈشیڈنگ ہو جاتی ہے۔کبھی کبھی آپ جذباتی طور پر سن بھی ہو جاتے ہیں۔ سلگن کا ایک بہت سنجیدہ مسئلہ جسمانی توازن قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کا نتیجہ چکر آنا، لڑکھڑانااور حادثات کا رجحان بڑھ جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔

بحالی میں زیادہ تر افرادکو نیند کے مسائل پیش آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مسائل وقتی اور کچھ دیر پا ہوتے ہیں۔ بحالی کے شروع میں ایک بہت عام مسئلہ پریشان کن خوابوں کا ہوتا ہے تاہم نشے سے پرہیز کی مدت بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی نیند بہتر ہو جاتی ہے۔

’’مالک کبھی ہیروئن پینا شروع کر دیتا تھا اور کبھی کچھ عرصے کیلئے ترک کر دیتا تھا۔ پرہیز کے وقفے عموماً کئی مہینوں تک چلتے۔ ان دنوں میں جب وہ ہیروئن نہیں پی رہا ہوتا تو اسے ایسے خواب آتے جن سے اس کی نیند بری طرح خراب ہوتی۔ اس کی بیوی بتاتی ہے’’مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ان ڈراؤنے خوابوں کا تعلق ہیروئن پینے یا نہ پینے سے ہے۔ وہ اکثر دہشت سے بستر پر چیخنے لگتا۔ جب میں اسے پرسکون کرنے میں کامیاب ہو جاتی تو اسے یاد نہ رہتا کہ اس نے کیا خواب دیکھا تھا۔ ایک سال کے پرہیز کے بعد یہ خواب آنے بند ہو گئے۔ پھر مجھے یہ احساس ہوا کہ ان خوابوں کا تعلق ہیروئن پینے سے تھا‘‘۔

سلگن دباؤ پیدا کرتی ہے اوردباؤ سلگن کو بڑھاتا ہے۔ ان لمحوں میں جب دباؤ زیادہ نہ ہو تو تکلیفوں میں افاقہ ہو جاتا ہے اور وہ ختم بھی ہو سکتی ہیں، آپ اچھا محسوس کرتے ہیں، آپ کے خیالات شستہ، جذباتی ردعمل مناسب اور یادداشت ٹھیک ہوتی ہیں لیکن دباؤ بڑھ جائے تو آپ کا ذہن کند اور جذبات بپھر جاتے ہیں۔ بحالی کیلئے نشے سے مسلسل پرہیز کی ضرورت ہے لیکن سلگن نشے سے مسلسل پرہیز میں حائل ہوتی ہے۔ یہ بحالی کا انوکھا پن ہے۔ نشہ کر لینے سے وقتی طور پر یہ علامات غائب ہو جاتی ہیں لیکن ان تکلیفوں کا آغاز ہو جاتا ہے جو نشے کے استعمال سے تعلق رکھتی ہیں۔

’’تنویر کو اپنی بحالی کے شروع میں ہی ملازمت مل گئی۔ وہ نئی ملازمت میں کام کاج اور ذمہ داریاں سیکھنے میں پراعتماد تھا۔ جب اسے تفصیلات بتائی گئیں تو انہیں سمجھنے میں اُسے کوئی مشکل پیش نہ آئی لیکن کچھ عرصے کے بعد جب اس نے کچھ کام خود کرنے کی کوشش کی تو اسے یاد نہ آیا کہ اسے کیسے کرے؟
وہ بہت پریشان رہنے لگا اور جوں جوں دباؤ بڑھنے لگا توں توں اُس کی یادداشت کا مسئلہ بگڑنے لگا۔ جب مسائل کافی سنجیدہ ہونے لگے تو تنویر کو ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ وہ حیران رہ گیا کہ آخر اسے ملازمت سے ہاتھ کیوں دھونے پڑے؟ وہ سوچنے لگا کہ شاید وہ بالکل نکما ہو گیا ہے‘‘۔

جہاں سلگن کو سمجھنا ضروری ہے وہاں سلگن کی علامات کو کم کرنے کیلئے ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ تاہم تسلی رکھیں کہ آپ نااہل اور نکمے ہیں اور نہ ہی آپ پاگل پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ چونکہ سلگن کی علامات دباؤ سے ظاہر ہوتی ہیں اس لئے آپ کو سلگن کو کنٹرول میں رکھنے کے طریقے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 

“رانا خورشید نے ہیروئن کے نشے سے بحالی پائی۔ اس نے بائیس سال کی عمر میں ہیروئن پینا ترک کر دی۔ بحالی میں جو امکانات اسے نظر آرہے تھے ان پر وہ بہت پر جوش اور خوش تھا۔ ابتدائی علاج کے بعد اس نے اپنی زندگی کا تانا بانا بحالی کے گرد بننا شروع کر دیا۔ اسے ایک اچھی نوکری مل گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد اس نے محسوس کیا کہ وہ چیزیں جو ایک وقت اسے آسان لگتی تھیں اب پیچیدہ لگنے لگی تھیں۔ خیالات اس کے ذہن پر سوار رہتے اور وہ انہیں کوئی ترتیب نہیں دے سکتا۔ وہ بتاتا ہے کہ جب میں بینک میں ضروری فارم بھر رہا تھا تو میں بوکھلا گیا۔ ہر چیز ایک دم میرے ذہن میں گڈمڈ ہونا شروع ہوگئی۔ میں اٹھا اور بغیر فارم بھرے باہر آگیا۔
جھنجھلاہٹ اور ہیروئن پینے کے خوف سے رانا صاحب ’’بھگوڑے‘‘ ہو گئے۔ اُنہوں نے ہر چیز کو ترک کر دیا۔ انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اُن کا دماغ خراب ہو گیا ہے درحقیقت وہ سلگن سے گزر رہے تھے۔

سلگن کی علامتیں ہر ایک میں ایک سی نہیں ہوتیں۔ وہ اپنی شدت، مدت اور تعداد میں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ایک ہی طرح کی علامات سے گزرتے ہیں اورکچھ لوگ دوسری طرح کی۔ حد یہ ہے کہ کچھ لوگوں میں بہت معمولی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

جو لوگ سلگن کا کوئی علاج نہیں کرتے اُن میں بھی کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سلگن بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ پہلے سے بدتر بھی ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات اس میں کوئی فرق نہیں آتا۔ کبھی یہ شروع ہو جاتی ہے اور کبھی ختم۔ یاد رہے کہ سلگن کے یہ انداز اُن لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو سلگن کا کوئی علاج نہیں کرتے اور جو اُن علامات سے بچنے اور نپٹنے کے بارے میں سرے سے کچھ نہیں جانتے۔ اگر آپ جانتے ہوں گے کہ کیا کرنا چاہئے تو آپ سلگن کی علامات کو پسپا کر سکتے ہیں۔ سلگن کی علامتوں کو پسپا کرنے کیلئے ایک آسان، واضح اور فوری نتائج کا حامل پروگرام موجود ہے۔ جسے کا نام دیا گیا ہے۔ ہالٹ پروگرام ’’ابتدائی طبی امداد‘‘ فراہم کرتا ہے اور مریض کو ارتداد کی گہری گھاٹی میں گرنے سے بچاتا ہے۔

بار بار ریلیپس ہونے کی علت میں مبتلا ان مریضوں کیلئے سے ہٹ کر بھی لازم ہے جس سے ان مریضوں کو قدم قدم پر سنجیدہ مدد فراہم کی جاتی ہے۔ سلگن قابو میں نہ آئے تو پھر حتمی چارہ کار کے طور پر دوبارہ نشے میں گرنے سے پہلے ہی انہیں کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ نشے کے دوبارہ استعمال سے قبل ہی معالج کیلئے داخلے کا مشورہ دینا اور مریض و اہل خانہ کیلئے یہ مشورہ قبول کرنا آسان نہیں تاہم اخلاص کے ساتھ سنجیدہ تبادلہ خیالات،اتفاق رائے پیدا کرتا ہے۔ مریض اور اہل خانہ اگر ان ڈور علاج کیلئے رضامند نہ بھی ہوں تو کسی اور نے نہیں، خود معالج نے ہی نبھانا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں یہ سکھانا بھی معالج کا ہی فرض ہے۔

سلگن کی علامات سے نپٹنا ممکن ہے

سلگن کے خلاف خود کو قبل از وقت مضبوط کرنے پر آ پ جتنی زیادہ توجہ دیں گے اتنے ہی آپ سلگن سے محفوظ ہو جائیں گے، اول تو آپ کو سلگن کا سامنا ہو گا ہی نہیں اور اگر ہو گا تو سلگن کی شدت کم ہو گی۔ وہ حالات جو آپ میں سلگن کی علامات پیدا کرتے ہیں اُن میں اپنی نگہداشت نہ کرنا اور بحالی کے پروگرام پر توجہ نہ دینا شامل ہیں۔ اگر آپ ریلیپس کے بغیر سلگن سے بحال ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی میں دباؤ پیدا کرنے والے حالات کے بارے میں باخبر رہنے اور اُن کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں دباؤ آپ میں سلگن کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔ وہاں فوری اور مؤثر حکمت عملی سلگن کی شدت کو توڑ دیتی ہے۔

چونکہ آپ سلگن جیسے حالات کو پیدا ہونے سے یقینی طور پر روک نہیں سکتے اس لئے حفظِ ماتقدم کے طور پر آپ کو ان سے نپٹنے کے مؤثر طریقے سیکھنے ہونگے۔ حالات آپ کی بحالی کو ڈانواڈول نہیں بناتے بلکہ ان حالات پر آپ کا نامناسب ردعمل آپ کیلئے مسائل پیدا کرتا ہے اور آپ کا ردعمل نامناسب اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے تیاری نہیں کی ہوتی اور آپ اچانک نہتے ہی سلگن کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ دباؤ سلگن کو اسٹارٹ کر دیتا ہے اور اگر پہلے سے سلگن موجود ہو تو ذہنی دباؤ اسے مزید بڑھا دیتا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ، ذہنی دباؤ سے نپٹنے کے طریقے سیکھنے سے حتمی طور پر سلگن کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

چار ایسے روئیے جو سلگن سے نپٹنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں، اگر آپ ان چار سنہری رویوں پر اپنی توجہ مرکوز کر لیں اور ان میں مہارت بھی حاصل کر لیں تو ہم بڑے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ سلگن سے نپٹنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ یہ سنہری روئیے کیا ہیں، یہ جاننے کیلئے چند سطور تک اپنا تجسس برقرار رکھیں اور فی الحال وحید کی کہانی پڑھئیے۔

’’نشہ چھوڑے چھ ماہ ہونے کو آئے تھے لیکن اُس کے باوجود وحید کئی دفعہ چیزوں کو یاد رکھنے میں معمول سے زیادہ مشکل محسوس کرتا تھا۔ کبھی کبھی وہ زیادہ چڑچڑا ہو جاتا اور تشویش محسوس کرتا۔ اُس کا زیادہ اُٹھنا بیٹھنا اکبر کے ساتھ تھا۔ اکبر اور وہ دونوں روزانہ اکٹھے کافی پیتے، میٹھی پیسٹریاں کھاتے، سگریٹ پیتے اور ڈھیروں باتیں کرتے۔ وحید دوپہر تک وہاں رہتا پھر جب وہ گھر واپس پہنچتا اور کھانا کھاتا تو رات کے دو بج چکے ہوتے۔ گھر میں وہ ذرا ذرا سی بات پر شدید ردعمل محسوس کرتا اور اُس کا دل گھر سے نکل جانے کو چاہتا‘‘۔

وحید کی متبادل سرگرمیاں

معالج کے مشورے پر وحید نے کچھ متبادل سرگرمیاں اختیار کرنے کا سوچا تاکہ اُس کا رد عمل نارمل ہوسکے۔ بجائے کافی کے اس نے صبح اُٹھتے ہی پھل کھانا شروع کر دئے، خصوصاً اسے ٹھنڈا تربوز بہت مزہ دیتا تھا۔ اس سے کچھ افاقہ ہوا۔ اُس نے ناشتہ بھی آزمانے کا فیصلہ لیا۔ عرصہ دراز سے اس نے کبھی ناشتہ نہیں کیا تھا۔ صبح کے وقت اس کا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ چائے کافی اور سگریٹ، بس اُس کے دن کا آغاز کچھ ایسی ہی چیزوں سے ہوتا تھا۔

اس نے اپنے ذہن کو تبدیلی پرآمادہ کر لیا تھا۔ براؤن بریڈ کے دو سلائس، دو انڈے روزانہ بدلتی ہوئی شکلوں میں ایک کپ بغیر چینی والی چائے، یہ اُس کیلئے مزے کا ناشتہ تھا۔ اس طرح اسے اور زیادہ مدد ملی۔ وحید اور اکبر نے کیفین کے بغیر کافی پینا شروع کردی اور پیسٹری کھانی بھی بند کردی۔ وہ کھانے کیلئے گھر جلدی واپس آنے لگااور کچھ ورزش شروع کر دی۔ خاص بات یہ تھی کہ ورزش کیلئے جم جا کر دو گھنٹے تک خود کو ہلکان کرنے کی بجائے اس نے ورزش کو ہلکے پھلکے انداز میں تقریباً سارے دن کے دورانیے میں پھیلا دیا۔ یعنی دن میں کئی دفعہ ورزش لیکن کسی موقع پر بھی تین منٹ سے زیادہ نہیں۔ پھر اس کا دل چاہا کہ دوپہر کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارے۔ تھکاوٹ سے بچنا اس نے بطور خاص اپنی عادت میں شامل کر لیا تھا۔ اس نے آرام اور کام کو چھوٹی چھوٹی باریاں دینا شروع کردیں۔ گھر آتے ہی ذرا ذرا سی بات پر اُس کا بھڑک اُٹھنا اب ماضی کی بات ہو چکی تھی۔

آئیے! اب ہم بات کرتے ہیں چار سنہری رویوں کی، جو سلگن کیلئے ابتدائی طبی امداد کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان چاروں نہری رویوں کو ہالٹ پروگرام بھی کہتے ہیں۔ HALT کا لفظ سلگن سے نپٹنے میں مدد دیتا ہے۔

 کا لفظ سلگن سے نپٹنے میں مدد دیتا ہے۔ HALT

یعنی بھوکا ہے Hungry سے مراد H
یعنی غصیلا ، Angry کا مطلب ہے A
یعنی تنہا اور Lonely کا مطلب L
یعنی تھکا ماندہ ہے Tired کا مطلب T

ماہرین کہتے ہیں کہ سلگن کی حالت میں آپ بھوک ، غصے ، تنہائی اور تھکاوٹ سے حتیٰ المقدار کوشش کریں کہ بچیں۔
سلگن سے چھٹکارا پانے والے بتاتے ہیں کہ اپنی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنے والے ریلیپس سے بچ نکلتے ہیں۔ صرف یہ جان لینا کہ کھانے پینے کے خیال رکھنے، غصے اور منفی جذبات پر قابو پانے، دوسروں سے مل جل کر رہنے اور کام کاج کے ساتھ ساتھ اگر آپ منشیات کے چنگل میں سے بھی گزرتے ہوئے ہوں تو دونوں ادوار کو یاد کریں تو آپ جان لیں گے کہ اُن دنوں آپ اپنی ان ضرورتوں کا ذرا برابر دھیان نہیں رکھتے تھے۔ بحالی کا اہم اصول یہ بھی ہے کہ آپ اُن دونوں کے رویوں کو 180 ڈگری میں بدل ڈالیں۔ آئیے دیکھتے ہیں اسلم آپ کو کیا بتا رہے ہیں؟

’’جب میں ہیروئن کے شکنجے میں تھا تو مکمل طور پر کھانے پینے سے لاپرواہی برتتا تھا۔ درحقیقت میں اس قدر مصروف رہتا تھا کہ اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں جاتا تھا۔ صبح بستر سے اپنے آپ کو گھسیٹ کر نکالنا، نشے کی فکر کرنا، پھر پچھتاوے میں پڑے رہنا، گالیاں کھانا، گالیاں دینا، نشے کیلئے چومکھی لڑائی لڑنا، یہاں خورد و نوش کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ اب ایسی تو کوئی مصیبت باقی نہیں رہی، اب تو میں بطور مشغلہ کھانا پکاتا ہوں، خود بھی کھاتا ہوں اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہوں۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ غصہ تو میری ناک پر دھرا رہتا تھا۔ بس ذرا کسی نے انگلی اُٹھائی تو میں آپے سے باہر ہوجاتا، پھر نشہ کر کے ہی چین ملتا۔ نشہ کر لینے کے بعد مجھے کوئی فرق نہ پڑتا، چاہے کوئی مجھ پر کتنا ہی گوبر کیوں نہ پھینک دے۔ اب تو کایا ہی پلٹ گئی ہے ناں! غصہ آنا نارمل سی بات ہے۔
کوئی نہ کوئی ناراض تو کرے گا ہی، یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بات بھی بڑی نہیں ہوتی، آخر کون سی قیامت آ جائے گی؛ مجھے اب آپے سے باہر ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں غصے کو محسوس کر سکتا ہوں اور بس۔ غصے کی شناخت اور اس کے پسِ پردہ وجہ کو جان لینا ہی میرے لئے کافی ہے۔ اب مجھے ضرورت نہیں رہی کہ اسے پی جاؤں یا لوگوں پر اگل دوں۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ تنہائی کس قدر بھیانک کال کوٹھریوں میں پھیلی سیاہی کی مانند شے ہے۔ مجھے یاد ہے کہ منشیات کے چنگل میں رہنے کی ایک بہت بڑی وجہ تنہائی بھی تھی۔ میں تنہائی کے احساس کو سُن کرنا چاہتا تھا۔ اسی کیلئے مجھے نشے کی ضرورت پڑتی تھی۔ واہ واہ! کیا بات ہے؟ مجھے نشے سے اس کے سوا کچھ بھی نہ ملتا تھا کہ میں اپنے آپ کو جیتے جاگتے انسا ن سے چھپا سکتا تھا، ڈمپ کر سکتا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اب مجھے ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ مجھے درحقیقت اب پتا چلا ہے کہ اکیلے ہونے میں اور تنہا ہونے میں کافی فرق ہے۔ پرانے نشئی دوستوں سے دور رہتے ہوئے تنہا رہ جانے کا احساس ہوتا ہے، لیکن اب میں این اے کے دوستوں سے رابطہ کر کے اپنی تنہائی کو دور کر سکتا ہوں۔ این اے میٹنگ میں شرکت کرنا تو لاجواب ہے۔

نشے کے دنوں میں مجھے تھکاوٹ کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ مجھے آرام کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہ تھی۔ میں نشہ کر کے اپنے آپ کو سُن کر سکتا تھا۔ ناک آؤٹ کر سکتا تھا۔ کتنااحمقانہ طرز عمل تھا میرا۔ اب مجھے تھکاوٹ میں بھاگے پھرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہی، میں آرام کر سکتا ہوں۔ نشے میں ان بنیادی ضرورتوں سے لاپرواہی برت سکتا تھا کیونکہ نشے کا جھوٹا خدا میرے ساتھ تھا، پر اب میں اپنی نگہداشت سے ہی سکھ پا سکتا ہوں‘‘۔

سلگن پر قابو پانے کیلئے مندرجہ ذیل مشورے بھی مفید ہیں

آپ جس قدر اظہار خیال کر سکتے ہیں کریں۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں، کیا محسوس کر رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ باتیں جو آپ کو بے بنیاد اور فضول محسوس ہوتی ہیں اُن کا بھی اظہار کریں۔ ان لوگوں سے بات کرنا شروع کریں جو رائی کا پہاڑ بناتے ہیں نہ پہاڑی کی رائی ۔
کسی سے پوچھیں کہ آپ کی باتیں، آپ کے روئیے اور جو کچھ آپ کر رہے ہیں کیا وہ درست ہے؟ جیسے آپ چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ہو سکتا ہے حقیقت اس سے بہت مختلف ہو۔
 نشے کی بیماری، بحالی اور سلگن کی علامات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔ اس طرح تشویش، احساس جرم اور بوکھلاہٹ کم کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

ورزش صحت وتندرستی اور دباؤ کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ورزش آپ کے دماغ میں وہ کیمیکل پیدا کرتی ہے جس کی مدد سے آپ اچھا محسوس کرتے ہیں۔ ناچنا بھی ایسی ورزش شمار ہو گی بشرطیکہ یہ بھنگڑہ قسم کا ناچ ہو۔
آپ جو کچھ کھاتے ہیں اس کا ذہنی دباؤ سے بہت گہرا تعلق ہے۔ آپ کی غذا سلگن کی علامات سے نپٹنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کھانے کی نئی عادات اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ میٹھی گولیاں، مٹھائیاں، چائے، کافی، مشروبات سے پرہیز کریں۔ یہ اشیاء آپ کے جسم میں خوف یا جوش جیسا ردعمل پیدا کرتی ہیں۔
بھوک دباؤ پیدا کرتی ہے۔ آپ کھانے کے اوقات یوں ترتیب دیں کہ آپ کو کوئی کھانا چھوڑنا نہ پڑے اور آپ بنیادی کھانوں کے درمیان تین ہلکے پھلکے کھانے یعنی اسنیکس بھی کھائیں۔
آپ سکون کی مشقوں کیلئے کوئی کتاب یا کیسٹ خرید سکتے ہیں۔ اب تو سکون آور میوزک والے آڈیو پروگرام موجود ہیں، ایسے پروگرام آپ کو صداقت کلینک سے مل سکتے ہیں۔ ایسے آڈیو پروگرام خاص طور پرآپ کی ضرورت کیلئے تیار بھی کئے جا سکتے ہیں۔
متوازن زندگی گزاریں۔ متوازن زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جس میں جسمانی، نفسیاتی اور سماجی طور پر توازن ہو۔آپ بالاتر ہستی کواپنی زندگی میں عمل دخل کا موقع دیتے رہیں۔ متوازن طرز زندگی کیلئے مضبوط سماجی تعلقات کا تانا بانا چاہئے۔
روحانیت اپنی ذات سے بالاتر کسی ہستی کے ساتھ آپ کے عملی تعلق کا نام ہے جو آپ کی زندگی کو مقصد اور معنی دیتا ہے جب آپ کسی روحانی پروگرام پر عمل کرتے ہیں تو آپ شعوری اور عملی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ آپ اپنے سے بالاتر کسی ہستی کا حصہ بن جائیں۔
 اہل خانہ کے جو نقصانات کئے گئے ہیں اُس پر معذرت چاہیں اور تلافی کریں۔ جہاں تلافی ممکن نہ ہو وہاں اپنے روئیے بدلیں، خاص طور پر طریقوں کو بہتر بنائیں اور ان کے اطمینان کو مقدم جانیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کا مالک و خالق ہے، وہی آپ کی زندگی کی گاڑی کو چلائے رکھتا ہے۔ اسی کے فضل سے آج آپ نشے کی غلامی سے آزاد ہیں لیکن نشے کی تصوراتی زنجیروں سے چھٹکارا پانا ابھی باقی ہے۔ ہر آزادی ایک موقع پر آ کر ہمت کا امتحان مانگتی ہے۔ بہتر ہے آپ صبح شام خداتعالیٰ سے شعوری رابطہ بنائیں اور ہر معاملے میں راہنمائی چاہیں، پھر اس ’’تبادلہ خیالات‘ کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ آپ نے کن چیزوں کو اپنی زندگی میں باقی رکھنا ہے اور کن چیزوں کو اپنے روزمرہ معمولات سے خارج کر دینا ہے۔

بارہ قدموں کا پروگرام نشے کی بیماری سے نجات کیلئے دنیا بھر میں مؤثر ترین مانا جاتا ہے۔ یہ پروگرام الکوحل انانیمس یعنی اے اے نامی انجمن کی طرف سے پچھلی صدی کے چوتھے عشرے میں متعارف کرایا گیا۔ یہ انجمن شراب کے نشے سے بحالی پانے والوں نے تشکیل دی تھی۔ یہ رضاکارانہ تنظیم ہے۔ کسی کو اس میں شامل ہونے کیلئے مجبور نہیں کیا جاتا، پھر بھی لاکھوں لوگ اس میں شریک ہو کر نشے سے نجات پاتے ہیں۔ یہ پروگرام شراب کے مریضوں کیلئے معجزانہ طور پر بحالی کا تحفہ دیتا ہے۔
1935ء میں نیویارک کے ایک سٹاک بروکر بِل ولسن نے کئی سال کی جدوجہد کے بعد شرا ب سے نجات پائی تو قدرت نے اس شخص کو ہمیشہ کیلئے نشے کے مریضوں کی فلاح کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ ذاتی تجربے کے حوالے سے بِل ولسن پر یہ انکشاف ہوا کہ جب نشے کے مریض آپس میں مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو نہ صرف وہ نشے سے نجات بلکہ سکون کی دولت بھی پاتے ہیں ۔ بل ولسن نشہ چھوڑنے کے ابتدائی دور میں ایک دوسرے عادی شرابی ڈاکٹر باب سمتھ کو ملا تو اس کی نشے کی طلب نے اپنے شدت کھو دی۔ تب سے اب تک کروڑوں نشے کے مریض اس تجربے سے گزرے ہیں۔

بل ولسن اورڈاکٹر باب نے چار سال کے عرصے میں سو افراد پر مشتمل ایسے لوگوں کی انجمن قائم کی جو باہمی روابط اور کچھ خاص اصولوں پر چلنے سے شراب سے نجات پا چکے تھے۔ 1939ء میں ان لوگوں نے ایک کتاب میں اپنے نشہ کرنے اور چھوڑنے کے تجربات بیان کئے۔ اس کتاب کا نام ’’الکوحلکس انانیمس‘‘ تھا۔ اس کتاب میں نشہ چھوڑنے کے شہرہ آفاق بارہ قدم پیش کئے گئے۔ پھر الکوحلکس انانیمس کے نام پر شراب چھوڑنے والوں کی ایک انجمن قائم کی گئی۔ بل ولسن اورڈاکٹر باب سمتھ اس کے بانی قرار پائے۔
ال انان یہ کتاب چھپتے ہی دھڑا دھڑ شراب کے عادی اس بیماری سے نجات پانے لگے۔ بعد ازاں مریضوں کے اہل خانہ نے اس انجمن کے نقش قدم پر اپنی انجمن تشکیل دی جسے ’’ال انان‘‘ کا نام دیا گیا۔ پھر نارکوٹکس کا نشہ چھوڑنے والوں نے انہی بنیادوں پر اپنی انجمن تشکیل دی اور اس کا نام ’’نارکوٹکس انانیمس‘‘ رکھا ۔ بعد ازاں دوسرے نشوں، حتیٰ کہ جوئے اور موٹاپے کی بیماری میں مبتلا لوگوں نے بھی انہی اصولوں پر اپنی انجمنوں کی بنیاد رکھی اور فلاح پائی۔ آج دنیا بھر میں سو سے زیادہ تنظیمیں انہی اصولوں پر کاربند ہیں۔ ان کے بنیادی طریقہ کار میں کوئی فرق نہیں۔ چونکہ پاکستان میں ’’نارکوٹکس انانیمس‘‘ زیادہ متحرک ہے اس لئے ہم آئندہ بارہ قدموں کے پروگرام کا ذکر اسی حوالے سے کریں گے۔ نارکوٹکس انانیمس کو عام طور پر ’’این اے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی نشے سے نجات کی خواہش رکھنے والے شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ این۔اے کے پروگرام میں مریض ناصرف میٹنگوں میں شرکت کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں بارہ قدموں پر بھی عمل پیرا رہتے ہیں۔ نئے آنے والے کسی سینئر کو اپنا راہنما بناتے ہیں اور اُن مریضوں تک بھی پروگرام کا پیغام پہنچاتے ہیں جو ابھی تک نشے کی بیماری کے چنگل میں پھنسے ہوتے ہیں۔

بارہ قدموں کے پروگرام میں این۔اے میٹنگز مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ این۔اے میٹنگز میں شرکت کے علاوہ نشے کے علاج میں ’’فالو اپ‘‘ کی بہت اہمیت ہے۔ ’’فالو اپ‘‘ کا مطلب اُس علاج گاہ کے ساتھ منسلک رہنا، باقاعدگی سے آنا جانا اور انفرادی صلاح مشورہ اور کونسلنگ کی مدد حاصل کرتے رہنا ارتداد سے بچنے کیلئے ازحد ضروری ہے۔ ’’فالو اپ‘‘ کے بغیر تمام کئے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے۔ جہاں میں مریض بارہ قدموں کے حوالے سے ہونے والی میٹنگوں میں شرکت کرتا ہے وہاں علاج گاہ کے ’’فالو اپ‘‘ پروگرام میں اپنی شمولیت کو یقینی بنانا بھی تحفظ کو یقینی بنانے کے مترادف ہے۔

نشے کی بیماری سے نکلنے کے لیے نشے سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔ نشے کو بتدریج کم کردینے والے وعدے پورے نہیں ہوتے۔ نشے کا تھوڑا استعمال بھی نشے کی بیماری کو زندہ رکھتا ہے۔ نشے سے مکمل پرہیز بحالی کے لیے پہلا ضروری قدم ہے۔
سلیم نے نشے سے مکمل پرہیز کی ضرورت سے بغاوت کی‘ ـ”میں سمجھتا تھا کہ اپنے نشے کے استعمال کو کنٹرول کر سکتا ہوں۔ میں پانچ سال تک نشے کو کنٹرول کرنے کی کشمکمش میں مبتلا رہا‘ اس کے بعد ہی میں نے نشے سے مکمل پرہیز کو تسلیم کیا۔ نشے کو کنٹرول کرنے کے لیے میں نے جتنی کوششیں کیں‘ اتنی کوششیں شاید ہی میں نے اپنی زندگی میں کسی اور کام کے لیے کی ہوں۔ اس کے باوجود میں ناکام ہو کر مصائب میں پھنس جاتا۔ آخر کار میں خود سے یہ سوال کرنے لگا کہ نشے کو کنٹرول کرنا میرے لیے کیوں اہم ہے؟ جواب بہت سادہ تھا۔ چونکہ میں نشے کا مریض ہوں اور ہر حالت میں اپنا نشہ کرنے کا حق محفوظ رکھناچاہتا ہوں۔ “

نشے سے پرہیز بحالی نہیں ہے۔ اکثر حالتوں میں نشہ ترک کردینا طویل مدت کی بحالی کے لیے کافی ثابت نہیں ہوتا۔ جب تک کہ اس فیصلے کے ساتھ کسی طرح کا علاج شامل نہ ہو۔ کوئی اچھی نیت رکھنے والے مریضوں نے یوں نشہ چھوڑنے کی ایماندارانہ کوششیں کی ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔

علاج کا پہلا قدم جسمانی علاج ہے۔ جسمانی بحران ایک طبی مسئلہ ہے اور کسی ڈاکٹر کو ہی اس کا علاج کرنا چاہیے۔ صرف جسمانی علاج کافی نہیں، نشے سے پرہیز کو قائم رکھنے کے لیے کچھ عرصہ محفوظ جگہ رہنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ نشے کی بیماری سے نپٹنے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھے۔ نشے کے جوازات ڈھونڈنا (جیسے جذباتی اور گھریلو مسائل) فائدہ مند نہیں ہوتا۔ جو علاج نشے کی بیماری کو نفسیاتی مسائل کا نتیجہ سمجھنے کی بجائے اسے ایک بنیادی جسمانی بیماری کے طور پر لیتا ہے وہ سب سے زیادہ مو ثر ہے۔

بحالی کے دوران اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مریض کو کچھ خاص پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں مالی مشکلات، ازدواجی، جذباتی اور نفسیاتی یا عملی زندگی کے مسائل شامل ہیں جو نشے کی بیماری کا براہ راست نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ مسائل عموماً ماہرانہ کونسلنگ اور تھراپی کی مدد سے جلد اور موثر انداز میں حل کیے جاسکتے ہیں۔

نشے کو کسی بھی نام سے پکاریں۔۔۔
بحالی کے خواہشمندوں کے لیے پہلا اصول یہ ہے کہ موڈ اور مزاج میں تبدیلی لانے والی تمام ادویات سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ ان میں ڈاکٹری نسخوں اور بغیر نسخوں کے ملنے والی تمام منشیات شامل ہیں۔ اس کا مطلب ہر صورت میں ہیروئن، شراب، خواب آور گولیوں اور مزاج میں تبدیلی پیدا کرنے والی کسی بھی چیز سے مکمل پرہیز ہے۔ نشے کے مریضوں کے لیے یہ تب ہی ممکن ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ وہ منشیات کے استعمال سے وابستہ ایک کمزور کرنے والی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں۔

علاج میں کیا ہوتا ہے؟

 پہلے مریض کا مکمل طبی معائنہ کیا جاتا ہے، اس کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اسے علاج کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
ابتدائی دس دن کے لیے اسے خاص نگہداشت کے وارڈ میں رکھا جاتا ہے اور ان تکلیفوں کا علاج کیا جاتا ہے جو نشہ چھوڑنے کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔
 پھر مریض کا نفسیاتی علاج شروع ہوتا ہے۔ اسے نشہ کی بیماری پر تفصیلی معلومات دی جاتی ہیں۔ اگلے مرحلے میں باقاعدہ تربیت شروع ہوتی ہے۔ روزانہ تین لیکچر ملتے ہیں جن میں قوت ارادی بڑھانے اور نشے کی طلب گھٹانے کے لیے خصوصی تدابیر سکھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ نشہ چھوڑنے کی تحریک دی جاتی ہے۔
ساتھ ہی مریض گروپ تھراپی میں شرکت کرتا ہے۔ اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ نشہ سے بحالی کا پروگرام سکھایا جاتا ہے جو پچھلے ساٹھ سال سے دنیا بھر کی علاج گاہوں میں رائج ہے۔ اس مین نشے سے بحالی کے بارہ قدم اور نشے سے بچاؤ کی منصوبہ بندی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
 اس کے علاوہ مریض کو جنس، تعلقات عامہ، تفریح، حفظان صحت، مذہبی امور اور روزگار جیسے موضوعات پر خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔

جب مناسب تربیت پانے کے بعد مریض نشے کے بغیر زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے تو اسے فالو اپ اور بحالی پانے والے مریضوں کی خصوصی محفلوں میں شمولیت کی تاکید کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔
نشے کی بیماری سے بحالی اور خوشحالی تک ایک لمبی جدوجہد ہے۔ کسی مریض کو پوری طرح بحال و خوشحال ہونے میں پانچ سال تک لگ جاتے ہیں، تاہم نشے سے پیدا ہونے والے زیادہ سنگین مسائل دو سے تین سالوں میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ بحالی بتدریج آگے بڑھنے والا عمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحالی نشو ونما کا عمل ہے جس کے کچھ بنیادی تقاضے ہیں۔ یہ سفر منشیات سے پرہیز سے شروع ہو کر متانت تک چلتا ہے جس میں آپ منشیات کے بغیر روزمرہ زندگی گزارنا سیکھتے ہیں۔

اگر ہم بحالی کے منصوبے کو چھ حصوں میں بانٹ دیں تو اس سے بہت مدد ملتی ہے۔ ہر دور کا ایک بنیادی ہدف ہے۔ یہ کام مخصوص ترتیب سے کرنے سے ہی بحالی حاصل ہوتی ہے۔ اگر آپ بحالی سے متعلقہ پہلے کچھ کام نہیں کرتے تو آپ اگلے مزید پیچیدہ کاموں سے نپٹنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے۔

بحالی کے دور اور اہداف

ترقی کا درجہ

علاج سے پہلے

ٹھہراؤ اور استحکام

ابتدائی بحالی

درمیانی بحالی

بحالی اپنے عروج پر

بحالی سنبھالے رکھنا

بنیادی گول

نشے کی بیماری کو پہچاننا

جسمانی بھران اور اس سے نپٹنا

تسلیم کرنا اور نشے کے بغیر مسائل سے نپٹنا

متوازن زندگی

شخصیت میں تبدیلی

نشوونما اور تر قی

پہلا مرحلہ: علاج سے پہلے

جب نشے کے استعمال سے مسائل پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں تو آپ یہ سیکھتے ہیں کہ محفوظ طریقے سے منشیات کا استعمال آپ کے لیے ممکن نہیں رہا۔ جب مسائل زیادہ پیچیدہ ہوجاتے ہیں تب آپ اپنے نشے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کئی دفعہ تو یہ مرحلہ علاج میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ کئی مریضوں کا علاج ان کی مرضی کے خلاف شروع ہوتا ہے۔ زندگی کو خطرہ لاحق ہونے اور مریض کی طرف سے دوسروں کی زندگی اجیرن کرنے کی صورت میں ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص نشے کی بے ہوشی میں علاج میں آنے کے لیے مجبور کر دیا جائے اور اس سے پہلے اس نے کبھی محسوس نہ کیا ہو کہ نشہ کرنا اس کے لیے کوئی مسئلہ ہے۔ علاج کی وجہ سے نشے کی بیماری کو پہچاننا اس شخص کے لیے علاج سے پہلے کا مرحلہ ہوگا۔

مداخلت کب ضروری ہوتی ہے؟

جب مریض صبح اٹھتے ہی پہلے نشہ کرے، ہر وقت نشے میں دھت رہنا پسند کرے، بے سکون اور تلخ رہے اور نشے کے لیے کچھ بھی کر گزرے، تو اہل خانہ کی طرف سے مداخلت ضروری ہوجاتی ہے۔ اگر وہ ہر وقت نشہ بیچنے والوں کی صحبت میں رہے، نشے کی وجہ سے اس پر مقدمات ہوں اور جسمانی طور پر انتہائی لاغر ہوجائے تو فی الفور اس کے علاج کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔ جب کہیں آگ لگی ہو تو پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ اسے بجھا دیا جائے۔ آگ لگنے کی وجوہات اور آئندہ کے لیے احتیاط بعد میں سوچنے کی باتیں ہیں۔ یاد رکھیے! نشے کی بیماری انتہائی خطرناک ہے۔ ہر پانچ سال میں بیس فیصد مریض علاج نہ ملنے کی وجہ سے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ صرف تین فیصد والدین علاج کے بارے میں سوچتے ہیں اور ایک فیصد واقعی علاج حاصل کرتے ہیں۔
علاج سے پہلے بنیادی ہدف نشے کی بیماری کی موجودگی سے باخبر ہونا ہے۔ آپ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ منشیات کے استعمال کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں اور اب آپ نارمل طریقے سے نشہ استعمال کرنے والے نہیں بلکہ نشے کے مریض بن چکے ہیں۔

دوسرا مرحلہ: ٹھہرائو اور استحکام

ٹھہرائو اور استحکام کے مرحلے میں سوچ، جذبات، یاد داشت، قوت فیصلہ اور برتاؤ پر دوبارہ قابو پانا بنیادی ہدف ہوتا ہے۔ اگر آپ واضح طور سے سوچ نہیں سکتے، اپنے احساسات کو نہیں پہچان سکتے، چیزوںکو یاد کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں، فیصلہ نہیں کرپاتے اور برتاؤ پر قابو حاصل نہیں کرپاتے تو آپ نے استحکام حاصل نہیں کیا۔ استحکام ودڈرال اور سلگن پر قابو پانے سے ملتا ہے۔

تیسرا مرحلہ: ابتدائی بحالی

اس دور میں آپ نشے سے پاک زندگی کی اہمیت کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جبکہ “زخم”مندمل ہو رہے ہوتے ہیں۔ نشے کی بیماری کے زخم مندمل ہونے میں زیادہ وقت لیتے ہیں۔ تاہم جب ایک دفعہ “زخم” مندمل ہونے شروع ہوجاتے ہیں تو پھر نشے سے پرہیز اور کارآمد زندگی گزارنے میں زیادہ مشکلیں پیش نہیں آتیں۔ جب نشے کی وجہ سے آپ اپنی شخصیت مسخ کر بیٹھیں اور طرزِ زندگی کو پسماندہ اور غیر منظم بنا لیں تو بحالی کا ایک باقاعدہ پروگرام ضروری ہوجاتا ہے۔

چوتھا مرحلہ: بحالی کا درمیانی دور

آپ کی نشے کی زندگی کا تانا بانا نشے کے اردگرد بنا جاتا ہے۔ بحالی کے درمیانی دور میں ابتدائی ہدف طرزِ زندگی میں تبدیلی لانا ہے۔ آپ کا طرزِزندگی ایسا بن چکا ہوتا ہے جس میں آپ نشے کی بیماری سے پیدا ہونے والے دباؤ سے نپٹنے کے لیے نشے کا استعمال کرتے ہیں۔ بحالی کے درمیانی دور میں آپ کو بتدریج ایک متوازن طرزِ زندگی گزارنے کا چیلنج در پیش ہوتا ہے۔ نشہ نہ کرنے پر توجہ کے ساتھ ساتھ اب آپ زندگی کے معمولات پر توجہ دیتے ہیں جیسے ملازمت اور اہل خانہ سے متعلقہ مسائل۔

پانچواں مرحلہ: بحالی اپنے عروج پر

جب بحالی اپنے عروج پر ہوتی ہے تو بنیادی ہدف شخصیت میں تبدیلی لانا ہے۔ اس طرح عزت نفس، تعلقات، خوشی اور موثر طریقے سے زندہ رہنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ وقت اپنی ذات اور اقدار کو سمجھنے کے لیے بہترین ہے۔ آپ اب عمومی طور پر گہرے تعلقات بنانے کی مہارت کا جائزہ بھی لیں تو اچھا ہے۔ اگر یہ معاملات آپ کی زندگی میں ابھی تک صحیح نہیں ہیں تو بحالی کے عروج میں آپ ان خوبیوں کی ازسر نو تعمیر کرسکتے ہیں۔ شاید کچھ ماہرین کی مدد کی ضرورت بھی پڑے۔

چھٹا مرحلہ: بحالی سنبھالے رکھنا

بحالی قائم رکھنے کے مرحلے میں بنیادی گول نشے سے پاک کار آمد زندگی گزارنا ہے۔ اس کا مطلب بحالی کے ایک موثر پروگرام کو قائم رکھنا‘ ریلیپس کے خطرے سے آگاہ کرنے والی علامتوں کو پہچاننا، روزانہ کے مسائل کو حل کرنا اور کار آمد زندگی بسر کرنا ہے۔ ایک بحالی پانے والے نشے کے مریض کی حیثیت سے آپ پر لازم ہے کہ بحالی کے گرد گھومنے والا طرز زندگی قائم رکھیں۔

یاد رہے کہ نشے کی بیماری سے کوئی سڑک سیدھی بحالی کو نہیں جاتی۔ بحالی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ اکثر افراد آخر کار مختلف مرحلوں سے گزر کر ہی بحال ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بیماری اور بحالی سمجھتے سمجھتے ہی سمجھتے ہیں۔ وہ ان نئے خیالات کو اپنی روزمرہ زندگی میں شامل کرنے میں کچھ وقت لیتے ہیں۔

بحالی پانے افراد کے لیے یہ بات عام ہے کہ وہ وقتی طور پر پیچھے کی طرف بھی چل پڑتے ہیں۔ ایسا اکثر اس وقت ہوتا ہے جب وہ نئی باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا دباؤ ان پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ کچھ عرصہ کے لیے پیچھے پھسلنے لگتے ہیں۔ دباؤ کم ہونے پر وہ اس مسئلے سے احسن طریقے سے نپٹنے کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ پھر وہ نئے عزم سے کام شروع کردیتے ہیں۔ بحالی کے بہت سے مسافر آخر کار بحالی و خوشحالی حاصل کر لیتے ہیں۔

بحالی میں بہت سے افراد عروج کو نہیں چھوتے۔ جب بحالی کے دوران کسی فرد کو ایسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس کے لیے اس کے خیال میں ناقابل تسخیر ہوتی ہے یا وہ سمجھتا ہے کہ وہ اسے منظم نہیں کر پائے گا تو ایک طرح وہ اس مقام پر پھنس جاتا ہے۔ اس “رکاوٹ” کی وجہ سے بحالی کے دیگر کام بھی نامکمل رہنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ شخص غیر مطمئن رہتا ہے اور پسماندگی کی طرف چلا جاتا ہے۔

جب آپ بحالی میں کسی ایک مقام پر پھنس کر رہ جائیں تو ایک صحت مند اور موثر ر د عمل یہ ہو سکتا ہے کہ دباؤ کم کرنے کے لیے آپ عارضی طور پر پیچھے ہٹ جائیں۔ دوسرا قدم یہ ہے کہ آپ دوسرے لوگوں کے ساتھ نقطہ رکاوٹ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں، مناسب مدد حاصل کریں اور کامیابی سے اپنی رکاوٹ کو عبور کر جائیں۔

جب دباؤ بڑھتا ہے تو سلگن کی علامات نمودار ہوتی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ بحالی پانے والے بہت سے افراد شعوری طور پر سلگن کی علامات نہیں پہچان سکتے۔ نتیجہ ظاہر ہے وہ سلگن کی علامات سے نہیں نپٹ پاتے اور اس کی بجائے وہ خود فریبی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خود فریبی سے دباؤ اور بھی بڑھ جاتا ہے اور دباؤ بڑھنے سے سلگن اور بھی اذیت ناک ہوجاتی ہے۔ دباؤ بڑھنے سے مریض بونگی اور بے تکی حرکتوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

بحالی پانے والے افراد اکثر ڈانوا ڈول ہوجاتے ہیں۔ یہ افراد لاعلمی میں بار بار ترقی کرتے ہوئے اسی نقطے پہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ریلیپس کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ آخر کار وہ بتدریج کنٹرول ختم ہونے کے اس عمل کو جان لیتے ہیں جو ریلیپس کے سانجے سے قبل وقوع پذیر ہوتا ہے۔

ڈانواڈول بحالی سے گزرنے والے کچھ لوگ ریلیپس کے گورکھ دھندے میں بتدریج کنٹرول ختم ہونے کو پہچان نہیں پاتے۔ بظاہر بحالی کے پروگرام پر چلنے کے باوجود ان کی گرفت اپنی زندگیوں پر ڈھیلی پڑنے لگتی ہے۔ پروگرام میں شمولیت ان کی بحالی کے لیے کافی ہے وہ ریلیپس ہوجاتے ہیں۔ اور پھر وہ خود اور ان کے ساتھ رہنے والے دوسرے افراد حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہوگیا؟
یاد رکھیے! ڈانواڈول بحالی‘ بحالی نہیں ہے۔
بحالی سے پہلے مریض کہاں کہاں سے گزرتا ہے؟
مریض عام طور پر نشے کے “کیرئیر” میں مندرجہ ذیل مرحلوں سے گزرتا ہے
 اندھا دھند نشہ کرنا اور برباد ہونا۔
نشے کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کرنا اور ناکام ہونا۔
مجبوری میں وقتی طور پر نشہ چھوڑنا اور دوبارہ نشے کا انتظار کرنا۔
 ہمیشہ کے لیے نشہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا لیکن سابقہ طرز زندگی برقرار رکھنا
نشہ چھوڑنے اور طرزِ زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کرنا، جامع علاج اور بحالی کے ایسے پروگرام میں شمولیت اختیار کرنا جس میں یہ مقاصد حاصل ہوسکیں۔

ریلیپس کے بارے میں آپ جتنا زیادہ جانیں اور سمجھیں گے اتنا ہی ریلیپس کا خطرہ ٹل جائے گا۔ غلط فہمی پر مبنی عقیدوں میں گڑ بڑ یہ ہے کہ یہ آپ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیتے ہیں۔ ریلیپس سے متعلق غلط عقیدے مریضوں کے اندیشہ ہائے دور دراز کو سچ ثابت کردیتے ہیں۔ جب غلط عقائد ان کے لیے ” حقیقت” بن جاتے ہیں تو وہ ان پر یوں عمل کرتے ہیں کہ جیسے یہ سچ ہوں۔

ریلیپس کے بارے میں غلط عقیدے

منشیات کے استعمال سے متعلق غلط عقیدے۔
ریلیپس سے خبردار کرنے والی علامات کے بارے میں غلط عقیدے۔

 نشہ چھوڑنے کی خواہش سے متعلق غلط عقیدے۔
 علاج کے موثر ہونے سے متعلق غلط عقیدے۔

ریلیپس کا رجحان رکھنے والے بہت سے افراد یہ یقین رکھتے ہیں کہ بحالی محض منشیات کے استعمال سے پرہیز کا نام ہے۔ کئی افراد اس غلط عقیدے کو مزید بڑھا لیتے ہیں۔ آپ یہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ جب تک آپ نشہ نہیں کرتے تب تک آپ کنٹرول کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ منشیات کے استعمال پہ واپس آنا اور ریلیپس ہونا ایک شعوری فیصلہ ہے۔

نشے کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والی علامات نشے کے پرہیز سے ختم ہوجاتی ہیں لیکن نشہ چھوڑنے سے کچھ نئی علامات نمودار ہو جاتی ہیں۔ یہ علامات اتنی شدید ہو سکتی ہیں کہ ان کی وجہ سے آپ فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی کھو دیں۔ بہت سے مریض بتاتے ہیں کہ بحالی میں وہ اس قدر بگاڑ کا شکار ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ نشہ شروع کرنا ایک مثبت چیز لگتی ہے وہ اس قدر تکلیف میں ہوتے ہیں کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس صرف تین راستے ہیں۔

 تکلیف دور کرنے کے لیے نشے کا استعمال ۔

 خود کشی یا  پاگل پن۔

ان راستوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نشہ کرنا ان میں سب سے بہتر راستہ دکھائی دیتا ہے۔
ایک عام غلط عقیدہ یہ ہے کہ ریلیپس اچانک خود بخود بغیر کسی تنبیہ کے ہوجاتا ہے اور اس پر بحالی کے خواہشمند فرد کا بہت کم یا بالکل کنٹرول نہیں ہے، بس وہ ریلیپس نہ ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ ریلیپس سے پہلے آگاہ کرنے والی کئی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ جب آپ ان نشانیوں کو پہچاننا اور ان سے اچھی طرح سے نپٹنا سیکھ جاتے ہیں تو پھر آپ ریلیپس کے عمل کو شروع ہونے سے روک سکتے ہیں۔ اگر آپ اس غلط عقیدے کا شکار ہیں کہ ریلیپس محض منشیات کے استعمال کا نام ہے تو پھر آپ ریلیپس سے آگاہ کرنے والی نشانیوں کو بھی نہیں پہچان پائیں گے۔

وہ لوگ جو ریلیپس کو محض نشے کا استعمال سمجھتے ہیں وہ صرف ان نشانیوں کو پہچانتے ہیں جو منشیات کے استعمال پہ مبنی ہیں۔ مثلاً منشیات کے استعمال کے بارے میں سوچنا خود کو ایسی جگہوں پہ لے جانا جہاں منشیات استعمال کی جارہی ہوں اور فالو اپ میں شرکت چھوڑ دینا وغیرہ۔

سبھی مریض یہ دیکھتے ہیں کہ ریلیپس بہت عام بات ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے وہ اس کے لیے کچھ جواز بھی تراش لینا ضروری سمجھتے ہیں مثلاً اگر میں ریلیپس ہوتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھ میں نشہ چھوڑنے کی خواہش نہیں ہے، جب منشیات کے استعمال کے نتیجے میں میرا بیڑا غرق ہوجائے گا تو مجھ میں نشہ چھوڑنے کی خواہش پیدا ہوجائے گی۔

ریلیپس کا رجحان رکھنے والے افراد کا اس نتیجے پہ پہنچنا تباہ کن ہے۔ بہت سے افراد جو نشے کی بیماری سے بحالی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بحال ہونے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ یہ افراد دو تباہ کن غلط عقیدوں میں سے کسی ایک پہ کار بند ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کسی طرح کا علاج یا پروگرام فائدہ مند نہیں ہوتا حالانکہ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جو مریض ماضی میں بحالی کے کسی پروگرام میں ٹھیک نہیں ہوسکے تھے، دوبارہ اسی علاج پہ کار بند ہونے کے بعد بحال ہوئے۔ علاج یا این اے پروگرام میں ایک اور کوشش بار آور ثابت ہوسکتی ہے۔

اس سے متضاد اور ایک دوسرا غلط خیال یہ ہے کہ علاج اور پروگرام کسی بھی ایسے شخص کے لیے جو نشہ چھوڑنا چاہتا ہے یقینی طور پر کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس عقیدے کے ساتھ جب لوگ علاج میں ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر خود ان میں کوئی خامی ہے جس کی بناء پر ان کے لیے بحال ہونا ناممکن ہے۔

ماضی میں ریلیپس ہونا اس بات کی نشانی نہیں ہے کہ آپ کبھی بحال نہیں ہوسکتے، نہ ہی آپ بنیادی طور پر ناقابل علاج ہیں۔ آپ کو اپنی آستینیں چڑھا کر دوبارہ علاج میں جت جانا چاہیے۔ امکان ہے کہ اگر آپ کوئی ایسا علاج کا پروگرام لیتے ہیں جس میں ریلیپس سے بچاؤ کی منصوبہ بندی بطور خاص سکھائی جاتی ہے تو آپ مستقل نشے سے پاک زندگی گزار سکتے ہیں۔
بات اس طرح بنتی ہے۔۔۔

مریض کے پاس بحالی کے لیے ایک زبردست دلیل ہونا بہت ضروری ہے۔ ہزاروں لوگوں نے مریضوں کو نشے سے دور رکھنے کے لیے ہر جتن کرکے دیکھا لیکن مریض پہلی فرصت میں ریلیپس ہوگئے۔ مریض کے دل میں بحالی کی جلتی ہوئی تمنا اور اس کے اردگرد بحالی کی چلتی پھرتی مثالیں ہونا ضروری ہیں۔ بات اس طرح بنتی ہے۔

ریلیپس کا پروسیس نشے کے استعمال سے پہلے شروع ہوجاتا ہے جب کوئی دوبارہ نشہ کرتا ہے تو یہ اس ریلیپس کے پروسیس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ نشے کا استعمال بگاڑ کی تکلیف سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ بگاڑ ذہنی سطح پر جنم لیتا ہے۔ جنہیں این اے میں “سڑی سوچیں” کہا جاتا ہے۔ ان سوچوں سے روئیے اور عمل میں وہ تبدیلی آتی ہے جس سے “ریلیپس کے لیے اسٹیج سیٹ ہوجاتی ہے”۔ زندگی غیر منظم اور مفلوج ہوجاتی ہے۔ این اے میں اسے خشکی کہا جاتا ہے۔ یہ “خشکی” نشے کے استعمال کی طرف لے جاسکتی ہے۔ بحالی کی جدوجہد میں بہت سے مریض نشے کے استعمال سے تو دور رہے لیکن انہوں نے خود کشی کرلی یا جسمانی اور جذباتی دباؤ کی وجہ سے مات کھا گئے۔ یہ بحالی نہیں ہے۔

ریلیپس کے پروسیس کی اس وسیع تر سمجھ بوجھ کے ساتھ توجہ صرف نشہ کرنے یا نہ کرنے پر نہیں ہوتی بلکہ نشے سے پہنچے ہوئے نقصان کی تلافی، سلگن کی علامات سے نپٹنے کی ہنرمندی اور جسمانی ، نفسیاتی اور سماجی صحت کو بہتر بنانے پر ہوتی ہے۔ اس طرح زندگی منشیات کے استعمال کے گرد جسمانی، نفسیاتی اور سماجی صحت کو بہتر بنانے پر ہوتی ہے۔ اس طرح زندگی منشیات کے استعمال کے گرد گھومنے کی بجائے صحت مند طرز عمل اور بحالی کی راہ پر رواں دواں ہوجاتی ہے۔

اکثر نشے کے عادی افراد زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے کسی ایک بنیادی پسندیدہ نشے سے پرہیز کرتے ہیں تو وہ ایک متبادل نشہ شروع کر لیتے ہیں اور اس نئے نشے پہ ان کا انحصار ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ متبادل نشہ تکلیف کو دور کرنے میں اتنا موثر نہ ہو جتنا کہ ان کا پسندیدہ نشہ تھا اس لیے ان افراد کو اپنے پسندیدہ نشے کے خیال آنے لگتے ہیں اور اس کی حاجت ہونے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی نشے کے زیر اثر ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، یوں وہ دوبارہ اپنے پسندیدہ نشہ کرنے کا غیر ذمہ دارانہ فیصلے بھی کرسکتے ہیں۔

ایک نشے سے دوسرے نشے پر جانا بحالی نہیں ہے۔ اگر آپ یقین رکھتے ہیں کہ ہیروئن اور شراب وغیرہ کا استعمال چھوڑ کر آپ کثرت سے سگریٹ، چائے، چرس یا خواب آور گولیاں استعمال کر سکتے ہیں تو یاد رکھیں، آپ ایسا کر کے محفوظ نہیں رہ سکتے۔

چائے، کافی اور سگریٹ کی تو خیر ہے۔۔۔۔

جی نہیں! ان لوگوں کیلئے جو منشیات سے بحالی کی جدوجہد کر رہے ہوں چائے نشے کی طلب کو متحرک کر سکتی ہے۔ کثرت سے چائے کافی استعمال کرنے والے مریضوں میں تشویش، دباؤ، چڑچڑے پن اور شدید جذباتی ردعمل کا شکار ہوتے ہیں، انہیں یہ تو معلوم ہوتا کہ ایسا چائے یا کافی کی وجہ سے ہورہا ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کے ساتھ کچھ سنگین چیز ہورہی ہے۔ جوں جوں موڈ مزاج میں تبدیلی پیدا کرنے والے نشوں کے بارے میں بھی ہمارا علم بہتر ہورہا ہے، ہم کیفین اور نکوٹین کو بھی باقاعدہ نشوں میں شامل کرنے لگے ہیں یا کم از کم انہیں پہلے کی طرح بالکل بے ضرر نہیں سمجھتے۔

ریلیپس کی علامات کو نظر انداز کرنے سے بونگی اور بے تکی حرکتوں کا آغاز ہوجاتا ہے، ان سے پھر ریلیپس کا پروسیس شروع ہوتا ہے۔ پھر روز مرہ زندگی میں آپ کی کارکردگی پست ہونے سے بھی ریلیپس کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
بونگی حرکتوں سے مراد یہاں وہ عمل ہیں جن سے جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وقتی مزہ ملتا ہے لیکن اس کے بعد دیر تک تکلیف اور بے سکونی ملتی ہے۔ بونگی اور بے تکی حرکتیں کچھ دیر کے لئے اچھے احساسات دیتی ہیں لیکن بعد میں موڈ خراب ہوجاتا ہے۔ بہت سے افراد جو نشے سے بحال ہو رہے ہوتے ہیں وہ بعض اوقات یہ بونگی اور بے تکی حرکتیں نشے کے متبادل کے طور پر اپنا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ لوگوں میں اور بھی بونگی حرکتیں پیدا ہوتی ہیں جو بحالی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔

کھابہ گیری اور فاقے

جوا اور قمار بازی

کام کاج اور کامیابی کا خبط

ورزش اور جسمانی کثرت

 جنسی بے اعتدالی

سنسنی خیزی اور مہم جوئی

ذمہ داریوں سے فرار

فضول خرچی

’’داؤد چرس کے نشے سے بحال ہو رہا تھا۔ اپنے بحالی کے پروگرام میں ورزش کو شامل کرنے کیلئے اس نے تین میل روزانہ اور ہفتے میں تین دن بھاگنے کا فیصلہ کیا، جلد ہی اس نے روزانہ بھاگنا شروع کر دیا اور ایک دن میں کئی بار۔ جب کسی دن وہ نہ دوڑتا تو وہ بے چین اور چڑ چڑاہو جاتا۔ اس کی بیوی کو اس کا ایک ہی جواب’’کم از کم میں نشے سے تو دور ہوں‘‘پسند نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ کہ ایسا نشے سے دور خاوند نشہ کرنے والے خاوند سے کچھ بہتر نہیں ہے۔ ان کے درمیان ہر وقت جھگڑا رہنے لگا۔بونگی اور بے تکی حرکتیں نشے کے استعمال کی طرح ہی کیسے زبردست مسائل پیدا کرسکتی ہیں، یہ اس کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔

ایک ہی کام مثبت انداز میں کیا جاسکتا ہے اور بونگے و بے تکے انداز میں بھی۔ کسی بونگی اور بے تکی حرکت کا اندازہ اس بات سے نہیں لگایا جاتا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اس کا اندازہ ایسے لگایا جاتا ہے کہ آپ کوئی کام کیسے کررہے ہیں؟ ہر وہ کام جو بونگے اور بے تکے طریقے سے کیا جاسکتا ہے اسے مثبت طریقے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ طویل مدت کیلئے تکلیف یا بگاڑ کا باعث نہ بنے اور کارکردگی کو بھی متاثر نہ کرے۔

بونگی اور بے تکی حرکتوں اور مثبت راستے میں فرق ہے۔

کوئی کام اندھا دھند کرنے کی بجائے اعتدال اور میانہ روی سے کیا جائے تو وہی کام مثبت رویہ بن جاتا ہے۔ جب کوئی کام اندھا دھند کیا جاتا ہے تو یہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ نشہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کا ہدف موڈ بدلنا اور حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہوتا ہے۔ جب اس تلخ حقیقت سے بچنے کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ کام بونگا اور بے تکا بن جاتا ہے۔ جب کوئی عمل کسی کو حقیقت سے قریب تر کرنا ہے اور اس شخص کو حقیقت کا مقابلہ کرنے میں مدد دینا ہے تو یہ مثبت راستہ بن جاتا ہے۔

خود فریبی نیند کی طرح ہے۔ خود فریبی میں مبتلا شخص کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خود فریبی میں ہے۔ نشے کی بیماری خود سے بتاتی ہے، ’’فکر کی کوئی بات نہیں، تم بیمار نہیں ہو۔‘‘
عام لوگ بھی خود فریبی میںمبتلا ہوتے ہیں لیکن نشے کے مریض کی خود فریبی حد سے زیادہ ہوتی ہے۔ خود فریبی کے بغیر مریض کا گزارہ ہی نہیں ہوتا۔ اگر کسی نشے کے مریض کو یکدم اپنے اصل خیالات کا علم ہو جائے توصدمے سے اس کا دل بند ہو جائے۔ اسی لئے قدرت نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ مریض آہستہ آہستہ ہی حقیقت کو پاتے ہیں۔

بحالی میں بھی بہت آسانی سے خود فریبی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آپ ایسے انداز سے سوچنے کے عادی رہتے ہیں جو آپ کو اس چیز پہ یقین کرنے میں مدد دیتا ہے جس پہ آپ یقین کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنے کی بجائے کہ آپ کو تمام عمر کسی بحالی کے پروگرام پہ کار بند ہونے کی ضرورت ہے، یہ کہنا آسان ہے کہ ’’اب جب کہ میں نے نشہ چھوڑ دیا ہے تو ہر چیز ٹھیک ہوگئی ہے۔‘‘جب چیزیں تکلیف دہ اور خطرناک نظر آتی ہیں تو انہیں مٹا دینا یا یوں تبدیل کردینا کہ یہ کم خطرناک لگیں زیادہ آسان ہے۔ تکلیف دہ معلومات کو شعور میں نے آنے دینا تکلیف سے بپٹنے کا ایک طریقہ ہے جس سے وقتی آرام تو مل جاتا ہے لیکن مستقل بنیادوں پر تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ آپ کو اس کی قیمت دینی پڑتی ہے اور یہ قیمت ریلیپس بھی ہو سکتی ہے۔

ریلیپس کے پروسیس میں ایسی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں جو ریلیپس کے بارے میں باخبر کر سکتی ہیں۔ اگر ان نشانیوں کو دیکھنا آپ کے لئے مشکل اور پریشان کن ہے تو ان کو یوں بگاڑ دینا کہ یہ آپ کے لئے قابل قبول بن جائے بہت آسان ہوتا ہے۔ اس سے آپ وقتی طورپر زیادہ محفوظ اور مطمئن محسوس کریں گے لیکن اس کی وجہ سے ریلیپس کا پروسیس چلتا رہے گا اور آخر کار آپ بے قابو ہو جائیں گے۔ ریلیپس کا حقیقی امکان موجود ہے، تاہم اسے روکا جاسکتا ہے۔

آپ ماضی سے سیکھ سکتے ہیں۔ در حقیقت ماضی آپ کا بہت اچھا اور مؤثر استاد ہوتا ہے۔ یہ آپ کو سکھاتا ہے کہ کیا چیز آپ کے لئے مددگار ہے اور کیا چیز مددگار نہیں ہے۔ ماضی سے اگر آپ نشے سے پرہیز کرنا سیکھیں تو نہ صرف آپ مستقبل میں بھی نشے سے دور رہ سکتے ہیں بلکہ آپ جسمانی اور جذباتی بگاڑ سے بھی بچ سکتے ہیں۔ اگر یہ ساری ہنر مندی سیکھ جائیں تو آپ ریلیپس کے پروسیس کو کسی بھی جگہ سے روک سکتے ہیں۔

بحالی کی جدوجہد کرنے والے بہت سے افراد یقین رکھتے ہیں کہ اگر وہ نشہ استعمال نہیں کررہے تو ان کی بحالی ٹھیک جارہی ہے۔ یہ ایک غلطی ہے۔ یاد رکھیں!ریلیپس کا عمل نشے کا استعمال شروع ہونے سے بہت پہلے خاموشی سے آپ کے اندر شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہ لاشعوری طورپر ہورہا ہوتا ہے، اس لئے بہت عرصے تک آپ اس سے آگاہ نہیں ہوتے۔

نشے کی بیماری سے بحالی ایک متحرک عمل ہے۔ بحالی کی جدوجہد کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ روز مرہ بنیادوں پر ترتیب دیئے گئے پروگرام پر عمل پیرا ہوں۔ انہیں روزانہ خود کو یہ بتانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ نشے کی بیماری میں مبتلا ہیں اور نشہ کرکے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
نشے کی بیماری سے بحال ہونا یونہی ہے جیسے نیچے آتے ہوئے بجلی کے زینے پر اوپر کی طرف چڑھنا۔ یہ نا ممکن ہے کہ آپ ایک پل کیلئے بھی ایک جگہ کھڑے ہو جائیں۔ جب آپ اوپر چڑھنے سے رک جاتے ہیں تو آپ نیچے آنے لگتے ہیں۔ ریلیپس کی علامات پیدا کرنے کے لئے آپ کو خصوصیت کے ساتھ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ صرف بحالی کے لئے مناسب اقدام نہیں اٹھاتے تو یہ ہی کافی ہے۔ بحالی کے ایک مضبوط پروگرام کی عدم موجودگی سے ریلیپس کی علامات خود بخود پید اہو جاتی ہیں۔

اگر آپ سلگن سے گزر رہے ہیں اور آپ نے کچھ نہ کچھ کیا توپھر عموماً اسے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ آخر کار آپ اپنے عمل اورفیصلہ کرنے کی قوت پہ کنٹرول کھو دیتے ہیں۔ ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ مریض عموماً ریلیپس کی ابتدائی علامات سے شعوری طور پر باخبر نہیں ہوتے۔ ریلیپس کی علامتیں لاشعوری سطح پہ ہوتی ہیں، جب تک آپ ان کو شعور میں لانا نہیں سیکھتے، آپ ان علامات کے بارے میں نہیں جان سکتے۔

درحقیقت تمام زندگی کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، آپ اپنے روزمرہ کے معمول تبدیل کر دیتے ہیں۔ اپنی باقاعدہ عادتیں جو آپ کی زندگی کو قابل اعتماد بناتی ہیں، چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کے بحالی کے منصوبے نظر انداز ہونے لگتے ہیں اور آپ ان سے بچتے ہیں۔ آپ کا کنٹرول نہیں رہتا، آپ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ آپ پاگل ہو رہے ہیں آپ کو اس سے بچنے کاکوئی چارہ نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ یا تو خود کشی کر لیں یا تکلیف سے نکلنے کیلئے نشہ استعمال کریں۔ اس نکتے پہ آپ شدید زوال کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ کی زندگی بکھر رہی ہوتی ہے، آپ نشہ استعمال کرنے لگتے ہیں کہ یہ آپ کو دوسرے راستوں کی نسبت بہتر لگتا ہے۔

لیکن ہر کوئی جو ریلیپس کے گورکھ دھندے سے گزر رہا ہوتا ہے لازمی نہیں کہ نشہ استعمال کرے۔ کچھ لوگ دوسرے تباہ کن راستے اختیار کرتے ہیں۔ کچھ خود کشی کر لیتے ہیں یا سنگین حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں یا جسمانی اور جذباتی طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں۔ کئی مریضوں کو دباؤ سے متعلقہ بیماریاں شروع ہوجاتی ہیں جیسے سر درد، میگرین السر یا بلند فشار خون۔

قمر ایک 47سالہ شادی شدہ شخص تھا جس کی دو جوان بیٹیاں تھیں۔ اسے نشہ چھوڑے ہوئے سات ماہ ہو چکے تھے۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ دوبارہ کبھی بھی شراب نہیں پیئے گا چاہے اسے مرنا ہی کیوں نہ پڑے۔

کئی سالوں سے قمر ریلوے میں رات کی شفٹ میں کام کرتا چلا آرہا تھا یوں اس پہ کام کے دوران زیادہ نگرانی نہیں ہوتی تھی اور اس کا دن اضافی آمدنی کے لئے چھوٹے موٹے کام کرنے کے لئے فارغ ہوتا۔ ملازمین کی چھانٹی کی وجہ سے اسے دن کی شفٹ میں کام پہ لگادیا گیا۔

شفٹ کی تبدیلی سے قمر پہ بہت سا دباؤ آیا کیونکہ اسے سونے میں مشکلات ہوئیں وہ دن کو سونے کا عادی تھا اور اضافی کام نہ کرنے سے مالی مشکلات بھی پیش آئیں۔ اس کے علاوہ اسے زیادہ وقت اہل خانہ کے ساتھ گزارنا پڑتا اور بچوں کے شور کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا اس کے لئے مشکل تھا۔
جب اس کے قریبی لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ زیادہ پریشان نظر آتا ہے تو قمر نے بار ہا انہیں بتانا شروع کیا ’’میں ٹھیک ہو جاؤں گا مجھے بس ایڈجسٹ ہونے کے لئے کچھ وقت چاہیے۔‘‘

کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ قمر کو یوں محسوس ہونے لگا کہ بچے جان بوجھ کر اسے چڑانے کے لئے شور مچاتے ہیں۔ لگتا ہے اس کی بیوی لڑنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتی ہے اور اس کا ذہن غیر واضح اور بوکھلاہٹ کا شکار رہتا۔

چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنا بھی دشوار لگتا تھا۔

آخر کار قمر نے این اے کی میٹنگ میں جانا بالکل چھوڑ دیا۔ قمر کی بیوی اس نکتے پہ پہنچ گئی تھی کہ وہ طلاق کے لئے کہنے لگی۔ اسے ملازمت سے دو زبانی اورایک تحریری وارننگ مل چکی تھیں اور اس کا بیٹا لڑائی جھگڑے سے بچنے کیلئے اپنے دوست کی طرف رہنے کے لئے چلا گیا تھا۔
قمر نے ابھی بھی نشہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا لیکن وہ خود کشی کے بارے میں سوچنے لگا۔ ’’اگر میں یوں کروں تو لگے گا کہ میں اچانک ٹرین کے آگے آگیا ہوں۔۔۔۔۔‘‘

قمر کی بیوی کو پتا چل گیا تھا کہ ریلیپس کو روکا جاسکتا ہے اور اس نے قمر کو علاج یا طلاق کا فیصلہ کرنے کو کہا۔ اس نے خود کشی کی بجائے زندگی کا فیصلہ کیا۔

ریلیپس کے گورکھ دھندے کو ریورس گیئر لگایا جاسکتا ہے۔ ریلیپس کے مرحلوں کو پہچاننے کی صلاحیت حاصل کرنا ریلیپس کو روکنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ریلیپس سے بچاؤ کا بہترین طریقہ سلگن کی علامات سے نپٹنا ہے۔ لیکن اگر آپ پہلے ہی کافی تکلیف اور بگاڑ کے مرحلوں سے گزرچکے ہیں پھر شاید یہ طریقہ کارگر ثابت نہ ہو۔ ایسے میں آپ کو ریلیپس کے عمل کو روکنے اور استحکام حاصل کرنے کیلئے خاص مدد کی ضرورت پڑے گی۔

اس صورت میں پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ کسی محفوظ جگہ میں پناہ لی جائے جہاں آپ فوری بحران سے محفوظ اور منشیات سے دور ہوں۔ اگر ریلیپس کا حملہ ہلکا ہے تو پھر اس عمل کو موڑنے کیلئے کچھ وقت خاموش اور پر سکون فضا میں گزارنا کافی ہوسکتا ہے۔ اگر یہ عمل درمیانے درجے کی شدت کا ہے تو پھر ضروری ہے کہ آپ کام سے کچھ عرصے کی چھٹی کریں اور کچھ عرصہ ان لوگوں اور جگہوں سے دور رہنے کا سوچیں جن کی وجہ سے یہ سلسلہ شدید ہوتا ہے۔

اگر ریلیپس کی علامات شدید ہیں تو اس سے پہلے کہ نشے کا استعمال شروع ہوجائے یا آپ سنگین اعصابی بگاڑ یا کسی اور چیز کا شکار ہو جائیں تو علاج گاہ میں داخلہ ضروری ہوجاتا ہے۔ وہ افراد جو شدید بگاڑ کے مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں کبھی محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے نشہ نہ شروع کیا تو وہ پاگل ہو جائیں گے یا خود کو مارلیں گے۔ آپ کو پہلے ہی سے پتا ہونا چاہیے کہ اور راستے بھی ہیں۔ علاج گاہ میں داخلہ ان میں سے ایک ہے۔ آپ ایسی علاج گاہ میں جائیں جہاں بحالی کا ٹھوس پروگرام روز مرہ بنیادوں پر رائج ہو۔

بحالی کے مسافروں میں ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیںجو نشہ کرنے کی بجائے مرنا پسند کرتے ہیں، یہی وجہ سے کہ نشے کے مریضوں میں خود کشی کی شرح زیادہ ہے۔ یہ بہت المناک بات ہے کیونکہ منشیات سے بحالی بالکل ممکن ہے لیکن موت سے واپسی کا سفر ناممکن ہے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ آپ کی زندگی خطرے میں ہے اور آپ کی تکلیف اتنی شدید ہے کہ خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہیں تو پھر فوری مدد لیں۔ کامیابی کے کئی راستے ہوتے ہیں جو آپ کو تکلیف کے باعث سجھائی نہیں دیتے۔

ریلیپس کا لفظ تب ہی کہا جائے گا جب چار چیزیں پائی جائیں۔

آپ نے منشیات سے بحالی کا معقول پروگرام لیا ہو۔
آپ کو علم تھا کہ آپ نشے کے مریض ہیں اور منشیات محفوظ طریقے سے استعمال نہیں کرسکتے۔
آپ اس ارادے کے ساتھ ہسپتال سے فارغ ہوں کہ آپ این اے اور ماہرانہ آؤٹ ڈور بنیادوں پر کاؤنسلنگ جاری رکھیں گے اور نشے سے دور رہیں گے۔
آپ آخر کار اپنے نشے سے دور رہنے کے عہد پر قائم نہ رہ سکے اور دوبارہ نشے کے استعمال پہ واپس آگئے۔

مرحلہ نمبر۱

 اس مرحلے میں مریضوں کو اکثر واضح طور پر سوچنے یا سادہ مسائل حل کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ ان کے ذہن میں ایک ہی خیال بار بار تیزی سے گردش کرتا رہتا ہے اور کبھی ان کا ذہن خالی اور بند ہوجاتا ہے۔ ان میں غلط فیصلے کرنے کا رجحان ہوتا ہے۔ یہ اس قسم کے فیصلے ہوتے ہیں جو کہ اگر ان کیسوچ نارمل ہوتی تو وہ کبھی نہ کرتے۔

 بہت سے لوگوں کو دباؤ سے نپٹنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ پر سکون ہونے کے لئے جو چیزیں دوسرے لوگ کرتے ہیں وہ یا تو ان کے لئے مفید نہیں ہوتیں یا اس سے ان کا دباؤ اور خراب ہو جاتا ہے۔
 بہت سے افراد کو پرسکون نیند لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ وہ سو نہیں سکتے، جب وہ سوتے ہیں تو انہیں ڈراؤنے اور پریشان کن خواب نظر آتے ہیں۔ وہ سوتے ہوئے کئی دفعہ ہڑبڑا کا اٹھ جاتے ہیں اور دوبارہ سونے میں مشکل ہوتی ہے۔ صبح جب وہ اٹھتے ہیں تو تھکاوٹ اور بے آرامی محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ بہت زیادہ تھکن کی وجہ سے بہت لمبے عرصے کے لئے سوتے رہتے ہیں یہ وقفے دو دن تک طویل ہو سکتے ہیں۔
بہت سے افراد کو جسمانی توازن میں مشکلات پیش آتی ہیں جس میں چکر آنا، توازن برقرار رکھنے میں مشکل، آنکھ اور ہاتھ کے تال میل میں مشکل اور سست ردعمل شامل ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے لڑکھڑاہٹ اور حادثات کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔
بہت سے افراد کبھی گہرے احساس شرم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاگل، جذباتی طورپر پریشان اور بحیثیت انسان کے بگاڑ کا شکار ہیں۔

مرحلہ نمبر۲

 اس مرحلے میں بحالی کی جدوجہد کرنے والے افراد اپنے احساسات اور خیالات کو پہچاننے اور دوسرو کو بتانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔
ریلیپس کی اندرونی خبردار کرنے والی علامات بے چینی، خوف اور تشویش پیداکرتی ہیں۔ کبھی وہ خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ سوبر نہیں رہ سکیں گے۔ یہ بے اطمینانی آتی جاتی رہتی ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے کہ وہ کبھی نشے کی بیماری سے انکار کیا کرتے تھے، وہ اس پریشانی، خوف اور تشویش کو نظر انداز یا ان سے انکار کرنے لگتے ہیں یعنی ان کی خود فریبی نشے کا استعمال ترک کرنے کے بعد بحالی میں داخل ہوجاتی ہے۔

مرحلہ نمبر ۳

اس مرحلے میں بحالی کی جدوجہد کرنے والے افراد کسی ایسی چیز کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتے جس سے یہ تکلیف دہ اور بے چینی پیدا کرنے والے احساسات واپس آجائیں۔ ظاہر ہے پھر وہ ان چیزوں اور لوگوں سے گریز کرنے لگتے ہیں جو ان کو ایمانداری سے اپنے بارے میں سوچنے پہ مجبور کرتے ہیں۔ عام علامات مندرجہ ذیل ہیں۔

اکثر افراد خود کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ کبھی نشہ استعمال نہیں کریں گے۔ جب اس بات کا یقین پختہ ہوجاتا ہے تو پھر ظاہر ہے بحالی کا باقاعدہ پروگرام کم اہم نظر آنے لگتا ہے۔
وہ اپنی بحالی کی بجائے دوسرے افراد کی بحالی کے بارے میں زیاد ہ فکر مند رہنے لگتے ہیں۔ ان میں دفاعی رویہ اختیار کرنے کا رجحان ہوتا ہے۔
ان کی سوچ اور عمل میں مجبوری پیدا ہوجاتی ہے، ایک چیز کو بار بار کرنے کا رجحان بن جاتا ہے۔ کبھی زیادہ بول کر اورکبھی نہ بول کر گفتگو پہ کنٹرول کرنے کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے۔
 ان سے عجیب و غریب حرکتیں خود بخود سر زد ہونے لگتی ہیں اور بس نہیں چلتا کہ وہ انہیں روک سکیں۔ بہت سے حالات میں ایسی حرکتوں کیلئے دباؤ شدید ہوتا ہے۔

مرحلہ نمبر۴

اس مرحلے میں بحالی کی جدوجہد میں ’’مبتلا‘‘افراد بحرانوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ علیحدگی پسندی اور بحالی کے پروگرام کونظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ زندگی میں پے درپے انہیں مسائل پیش آنے لگتے ہیں۔ حالانکہ وہ ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن ہر ایک مسئلہ حل کرنے پہ دو نئے مسائل پیداہوجاتے ہیں۔
ان میں ’’تنگ نظری‘‘پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ زندگی کے صرف ایک تھوڑے سے پہلو کو دیکھتے ہیں اور مکمل تصویر کو نہیں دیکھتے۔
 ڈیپریشن کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں اور آہستہ آہستہ گہری ہوتی چلی جاتی ہیں
وہ مستقبل اور ہر روز کی پلاننگ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اکثر این اے کے نعرے ’’آج کے دن آج پہ توجہ‘‘کو اس معنی میں لیتے ہیں کہ ’’وہ نہ کچھ سوچیں نہ منصوبہ بندی کریں۔‘

 وہ شیخ چلی کی طرح زیادہ تر خیالی پلاؤ پکاتے ہیں۔ چونکہ وہ تفصیلات پر غور کئے بغیر ایسے منصوبے بناتے ہیں جو حقیقت پہ مبنی نہیں ہوتے اس لئے یہ منصوبے نا کام ہونے لگتے ہیں۔

مرحلہ نمبر ۵

وہ فرد کام کاج کرنے کی صلاحیت کھودیتا ہے۔ زندگی کے دھارے میں بہنا شروع کردیتا ہے۔ وہ سوچتا رہتا ہے کہ سب مسائل خود ہی ختم ہوجائیں گے۔
وہ عملی طور پر بغیر کچھ کئے حالات کے بہتر ہونے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ لیکن وہ بہتر حالات کی قیمت ادا کرنا نہیں چاہتا۔

مرحلہ نمبر۶

مریض چھوٹی چھوٹی باتوں پہ بھڑک اٹھتا ہے۔
اسے بوکھلاہٹ کے دورے پڑتے ہیں جن کے وقفے طویل ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے نئے نئے مسائل ابھرتے ہیں۔ نہیں اپنے آپ پہ غصہ آتا ہے اور حالات سمجھ میں نہیں آتے۔
 دوستوں، اہل خانہ، کونسلر اور دیگر ساتھوں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے لگتے ہیں
انہیں بغیر کسی معقول وجہ کے غصہ، جھنجھلاہٹ، رنجش اور چڑ چڑاپن محسوس ہوتاہے۔

مرحلہ نمبر۷

مریض اس قدر ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ روز مرہ کے معمولات پر قائم رہنا ان کے لئے ممکن نہیںہوتا۔
ان کی بھوک زیادہ یا کم ہوجاتی ہے۔ عملی طورپر کچھ کرنے کی خواہش میں اور کمی آجاتی ہے۔
 سونے جاگنے کے اوقات میں بے قاعدگی آجاتی ہے۔ نیند کی سبھی خرابیاں انہیںگھیر لیتی ہیں۔

مرحلہ نمبر ۸

اس مرحلے میں ان کا اپنی ذات اور روز مرہ معاملات پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم خود فریبی موجود ہوتی ہے، زندگی بے ہنگم ہوجاتی ہے اور اس کے ہر شعبے میں مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔

این اے میٹنگ میں شرکت باقاعدہ نہیں رہتی، بحالی کے حوالے سے عمومی طورپر پرواہ نہ ہونے کا رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس موقعے پر وہ کسی کی مدد لینے سے بھی انکاری ہوتے ہیں۔
زندگی کے حالات اس قدر خراب نظر آتے ہیں کہ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر نشہ استعمال کربھی لیں تو حالات مزید برے نہیں ہوس سکتے۔

مرحلہ نمبر۹

 ان کی خود فریبی کا پردہ چاک ہوجاتا ہے اور نہیں اس ساری گھمبیر صورت حال کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ ان کیلئے یہ احساس بہت تکلیف دہ اور ڈرانے والا ہوتا ہے کہ بحالی پر ان کا کنٹرول کس قدر کم ہوگیا ہے۔
وہ خود ترسی محسوس کرنے لگتے ہیں اور اس طرح دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ منشیات استعمال کرنے سے وہ بہتر محسوس کرنے لگیں گے۔ اب وہ شعوری طور پر جھوٹ بولنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ خود کو مقید محسوس کرتے ہیں۔

مرحلہ نمبر ۱۰

انہیں صرف تین راستے نظر آتے ہیں۔ پاگل پن، خود کشی یا نشے کا استعمال۔ اب انہیں بالکل یقین نہیں رہتا کہ کوئی شخص یا چیز ان کی مدد کر سکتی ہے۔ انہیں ہر ایک پر غصہ آنے لگتا ہے اور وہ بے وجہ کی رنجشیں پالنا شروع کر دیتے ہیں۔
نہ صرف این اے میٹنگ بلکہ وہ ہر طرح کا علاج ترک کردیتے ہیں۔ تنہائی، جھنجھلاہٹ، غصہ اور دباؤ ان پر حاوی ہوجاتا ہے۔ زندگی کے معاملات اور مسائل پر ان کی گرفت مکمل طورپر ڈھیلی پڑجاتی ہے۔

مریض اس قدر بے چین ہوجاتے ہیں کہ وہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ کنٹرول کرکے نشے کا استعمال ممکن ہے۔ وہ فی الحال کچھ عرصے کیلئے نشہ آور چیزیں استعمال کرنے کا سوچتے ہیں۔ وہ جسمانی اور جذباتی طورپر اس قدر مفلوج ہوجاتے ہیں کہ نیک ارادے سے نشہ استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی اور چوائس نہیں۔ نئے سرے سے نشے کا استعمال انہیںشیم اور احساس جرم میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے ’’میں اچھا انسان نہیں ہوں اور میرے لئے نشے ہی میں مر جانا مناسب ہے۔‘‘جلد ہی نشے کے استعمال پر بھی اس کا کنٹرول نہیں رہتا۔ اب نئے سرے سے دوسری قسم کے مسائل پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ شادی، ملازمت اور تعلقات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ آخر کار اس کی جسمانی صحت پہلے سے بھی گر جاتی ہے۔

بہت سے اہل خانہ اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں کہ انہیں کسی طرح کے ماہرانہ علاج کی ضرورت ہے۔ یہ اہل خانہ نشے کی بیماری میں اپنے کردار سے انکار کرتے ہیں اور اپنی، ذاتی اور خاندان کو درپیش مسائل کی ذمہ داری مریض پہ ڈال دیتے ہیں۔ یہ افراد غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں کہ نشہ چھوڑنے کے بعد اہل خانہ کی زندگی بہتر ہوجائے گی۔ اگرچہ وہ بحالی پروگرام پر کامیابی سے ہی کیوں نہ چل رہا ہو۔ ان کے رویے اور عمل مریض کی بحالی کے پروگرام پر کامیابی سے ہی کیوں نہ چل رہا ہو۔ ان کے رویے اور عمل مریض کی بحالی میں اتنا الجھاؤ پیدا کردیتا ہے کہ انہیں ریلیپس کی طرف لے جاتا ہے۔

اہل خانہ ریلیپس سے بچاؤ کیلئے مریض کے مضبوط ساتھی بن سکتے ہیں۔ جب اہل خانہ ریلیپس سے بچاؤ کی منصوبہ بندی میں شامل ہوجاتے ہیں تو انہیں نشے کی بیماری کو پہچاننے میں مدد دی جاتی ہے۔ نشے کی بیماری ایک ایسی بیماری کے طور پہ دیکھی جاتی ہے جس سے تما م اہل خانہ متاثر ہوتے ہیں اور انہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ نشے کے مریض کو نشے کی بیماری اور اہل خانہ کو ہمروگ کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم یہاں ہمروگ کی اصطلاح کسی بھی ایسے شخص کے لئے استعمال کریں گے جس کی زندگی نشے کے مریض کے ساتھ وابستہ ہونے کی وجہ سے بدنظمی کا شکار ہوچکی ہو۔ جو شخص ہمروگ کا شکار ہوتا ہے وہ نشے کے مریض کے ساتھ رہنے کے دباؤ کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش میں جسمانی، نفسیاتی اور سماجی علامات کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہمروگ کی بیماری بڑھتی ہے اس سے متعلقہ علامات بھی بڑھنے لگتی ہیں۔ ہمروگ کی علامات اور نشے کی بیماری کی علامات ایک جیسی ہوتی ہیں سوائے اس کے کہ ہمروگ کا شکار نشہ نہیں کرتے۔ (ذرا سوچیئے!)ہمروگ آخر کار خود مختار ہوجاتی ہے حالانکہ بنیادی طور پر نشے کی بیماری نے اسے جنم دیاتھا۔ اگر نشے کا مریض سوبر ہوجائے اور این اے میں شامل ہوجائے یا ہمروگ اس سے تعلق ختم کرلے تب بھی ہمروگ کی علامات قائم اور جاری رہتی ہیں۔

ہمروگ میں بگاڑ بھی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی طورپہ پیدا ہوتا ہے۔ دائمی دباؤ بڑھتا رہتا ہے اور اس درجے پہ پہنچ جاتا ہے کہ دباؤ سے کئی جسمانی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں جیسے میگرین، سردرد، السر اور ہائی بلڈ پریشروغیرہ۔

لوگ سالوں تک نشے کی بیماری کو جھیلتے ہیں۔ مریض سے مار تک کھاتے ہیں۔ خواتین کو میکے جانا پڑتا ہے۔ تب کہیں جاکر ان کے علاج کی نوبت آتی ہے۔
پھر ایک دن مریض علاج کے نتیجے مین نشہ چھوڑدیتا ہے۔ اہل خانہ کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن حیرت کا مقام ہے اہل خانہ خوش نہیں ہوتے۔ وہ بات بات پر غصہ کرنے لگتے ہیں۔

دراصل وہ اپنے مریض کے نشے کے زمانے کی حرکتوں کو معاف نہیں کرپاتے۔ جب بھی وہ مریض کو دیکھتے ہیں انہیں سب کچھ یاد آنے لگتا ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے۔ وہ اپنے مریض کے نشے کے ساتھ گزارا کرلیتے ہیں لیکن اپنی رنجش کے ساتھ گزارا نہیں کر پاتے۔

یہ نشے کی بیماری کو بیماری کے علاوہ کسی اور روپ میں دیکھنے کی عمدہ مثال ہے۔ وہ اپنے مریض سے توقع رکھنے لگے ہیں کہ ماضی کے ہر ’’گناہ‘‘کی تلافی کرے۔ جب وہ کوشش کرتا ہے تو اس کی کوئی کوشش آپ کیلئے کافی نہیں ہوتی۔ دس پندرہ سالوں کے گناہوں کا کفاراکوئی کیسے ادا کرسکتا ہے؟
یہ بھی درست نہیں کہ مریض نشہ کرنے کی وجہ سے آپ کو تنگ کرتا رہا ہے۔ مریض نشہ کرنے کی وجہ سے اہل خانہ کو تنگ نہیں کرتے، نشہ کی بیماری کی وجہ سے تنگ کرتے ہیں۔ نشہ ان کے جسم میں جاکر ’’بادی‘‘ہوجاتا ہے اور ان کی مت مار دیتا ہے۔ نشے کی بیماری کو سمجھ لینے سے بڑا فرق پڑتا ہے اور معاف کردینا اور بھلا دینا آسان ہوجاتا ہے۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نشئی ہوتے ہی خانہ خراب ہیں اور ان سے نیکی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے اور لوگوں کا گزارہ اس قسم کے نظریات کے ساتھ بھی چل جاتا ہے لیکن اگر آپ کی زندگی میں کوئی نشے کا مریض ہے تو ایسے خیالات آپ کو اور مریض کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔

مریض کو کنٹرول کرنے کی عادت آپ کو تب پڑی تھی جب وہ اندھا دھند نشہ کررہا تھا علاج کے بعد بھی اسے کنٹرول کرنے کو اس لیے جی چاہتا ہے کہ یہ ’’عادت‘‘ہے اور عادت لوٹ کر آتی ہے۔ اب آپ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مریض بے چین ہوتا ہے اور آپ کنٹرول چھوڑتے ہیں تو آپ بے چین ہوتے ہین۔ آپ بے چین نہیں ہونا چاہتے اس لیے آپ کنٹرول نہیں چھوڑتے۔
تین وجوہات کی بنا پر اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ مریض کو کنٹرول نہ کیاجائے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ کنٹرول آپ کی باہمی تعلقات کے لئے زہر ہے۔ دوسری یہ بہت ’’کٹھن مزدوری‘‘ہے۔ تیسری یہ کہ ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ اگر آپ بے چینی اور مایوسی کے طلب گار نہیں ہیں تو ہمارا مشورہ آپ کو یہی ہے کہ بے جا کنٹرول سے باز رہیں۔ اب آپ پر یہ جذبہ غالب آنے لگے تو معالج سے رابطہ کریں۔

آئیے!یہ فرض کرتے ہیں کہ آپ نے تمام گھریلوذمہ داریوں اور مالی امور سنبھال رکھے تھے اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ آپ کا پیار ا نشے کی دھت میں مگن یہ ذمہ داریاں ببھا نہیں سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے اب آپ خود بھی اس خواہ مخواہ کی ذمہ داری سے عاجز ہوں لیکن یہ ذمہ داریاں آپ کے معمولات کا حصہ بن گئیں اور اب آپ اسے ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اگر آپ یہ ذمہ داری سنبھالے رکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو مریض ناراض ہوتا ہے اور اگر مریض کو سونپتے ہیں تو آپ کو بے چینی ہوتی ہے۔ عام طور پر آپ کنٹرول جاری رکھتے ہیں ہی ’’خیریت‘‘ محسوس کرتے ہیں۔ اہل خانہ مریض پر بھروسہ نہیں کرپاتے۔ انہیں شک ہے کہ مریض کسی بھی وقت نشے میں گر جائے گا۔ ’’حفظ ماتقدم کے طور پر ‘‘وہ اپنے سابقہ رویئے مریض کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں۔ گھر کے ہر فرد کیلئے بہترین پالیسی یہ ہے کہ وہ مریض کو کچھ ذمہ داری اور سابقہ مقام دینے کیلئے فوری طورپر آمادہ ہو جائے۔ مریض کو اگر ذمہ دار بنانا ہے تو اسے ذمہ داریاں دینی پڑیں گی۔

وہ کون سی باتیں ہیں جو کچھ اہل خانہ سیکھ لیتے ہیں باقی نہیں سیکھ پاتے؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ گھرانے نشے کی بیماری سے بحال ہوجاتے ہیں اور کچھ ایسا نہیں کر پاتے؟ آپ کو یہی ’’فرق‘‘جاننے کی ضرورت ہے۔

مریض کے نشہ چھوڑنے کے بعد بھی آپ کو اس سے خاصی شکایات ہوتی ہیں۔ نشہ نہ ملنے سے بھی مریض تنگ ہوتا ہے اور وہ آپ کو تنگ کرتا ہے۔ نشہ چھوڑنے کے بعد بھی گھروں میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسے گھرانوں میں مریض کے نشے میں دوبارہ گرنے کے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا مریض بھی بحال ہونے والوں کی صف میں شامل ہو تو بہتر ہے آپ اپنے مریض کی نفسیات سمجھ لیں اور اس کے ساتھ اچھے طریقوں سے گزارا کرنا سیکھ لیں۔

مریض کا نشہ کرتے رہنا یا بحالی پانا ہماری زندگیوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ یہ ہم ہے کہ ہم مسئلہ حل کریں یا خود مسئلہ بن جائیں۔ ہمارا نفع نقصان کس میں ہے؟ اگر اہل خانہ بھی اپنے رویوں میںکوئی تبدیلی نہ لا سکیں تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ معاونت اور اشتعال انگیزی دونوں کا نتیجہ مریض کے پھر سے نشہ کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اپنے رویوں میں تبدیلی لانے سے مریض کی بحالی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

کامیاب علاج کی سب سے بڑی ذمہ داری مریض پر ہے۔ تاہم اہل خانہ کیلئے لازم ہے کہ وہ بیماری کے متعلق ٹھیک اور معیاری معلومات حاصل کریں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ مریض کو داخل کروانے کے بعد آپ آرام سے ٹی وی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ یہ بھی نہ سمجھیں کہ جو کچھ آپ نے کرنا تھا کر لیا، باقی سب کچھ مریض اور معالج پر ہے۔ اکثرہمیں ایسے خاندانوں سے واسطہ پڑتا ہے جوکہ مریض کو داخل کروانے کے بعد مریض اور ماہرین سے ’’قطع تعلق‘‘کرلیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں ’’نشہ کی بیماری پر علم حاصل کریں۔‘‘

وہ کہتے ہیں ’’یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے؟‘‘اگر نشے کی بیماری صرف مریض کا ہی مسئلہ ہوتا تو پھر مریض کے اردگرد رہنے والے کیوں متاثر ہوتے ہیں؟ اہل خانہ کیوںکئی سال مریض کو ’’ٹھیک‘‘کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

فرض کریں مریض پروگرام کے مطابق اپنا علاج مکمل کروا کے گھر واپس آجاتا ہے اور اپنے سابقہ رویوں کو اپنا لیتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہوگا کہ وہ دوبارہ نشے میں گر جائے گا۔ ان رویوں اور نشے کے استعمال میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر یہ رویئے باقی رہیں گے تو نشے کا استعمال بھی واپس آئے گا۔ نشہ چھوڑنے کیلئے اسے نشئی رویئے بھی بدلنے ہوں گے۔

ریلیپس سے نمٹنے کا پہلا سنہری اصول یہ ہے کہ ریلیپس کے امکان کو تسلیم کرلیں۔ مریض بیمارہے اور دوسری بیماریوں کی طرح مریض کو پھر سے ’’دورہ‘‘پڑ سکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ حتمی طورپر مریض نے خود ہی اپنی بحالی کا بوجھ اٹھانا ہے۔ ہم چوبیس گھنٹے مریض کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس کی رکھوالی نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو مریض ریلیپس نہیں ہوتے وہ آخر ایسا کیا کام کرتے ہیں کہ ریلیپس ہونے سے بچ جاتے ہیں۔

امید ہے آپ کر مریض دوبارہ نشے میں نہیں گرے گا۔ لیکن ریلیپس سے بچاؤ کی منصوبہ بندی ہر مریض اور اس کے اہل خانہ نے ایسے ہی کرنی ہے جیسے کہ اس کے ریلیپس ہونے کا قوی امکان ہے۔ ریلیپس سے بچاؤ کیلئے بہترین نکتہ یہ ہے کہ آپ مریض کو مسلسل علاج میں ہی رکھیں۔ یاد رکھیں کہ علاج سے مراد صرف وہ عرصہ نہیں جب مریض علاج گاہ میں ہوتا ہے۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد بھی معالج سے رابطہ اور علاج جاری رہنا چاہیے۔

یاد رکھیں! ریلیپس کی منصوبہ بندی ایسے ہی ہے جیسے کسی فوج کی تیاری۔ کسی بھی وقت دشمن سے حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر ہم حملے کیلئے تیار نہیں ہوں گے تو کسی بھی وقت حملہ ہو گا۔ ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے اور سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ ریلیپس کی منصوبہ بندی ایسے ہی ہے جیسے ہم سارا سال سیلاب سے بچنے کیلئے بند باندھتے ہیں۔ اگر ہم بند نہ باندھیں تو پھر ہر طرف تباہی اور بربادی ہی ہوگی۔ اگر سیلاب کے آنے پر ہم بند باندھنے چل پڑیں تو کیا ہوگا؟

جب ہم پہلے سے منصوبہ بندی کریں تو اکثر ریلیپس نہیں ہوتا۔ جو فوج ہر وقت تیار ہو اسے اکثر جنگ نہیں لڑنا پڑتی۔ اسے کوئی نہیں آزماتا۔

اکثر اہل خانہ سوال کرتے ہیں کہ علاج کے بعد مریض کو خرچہ دیں کہ ناں؟اس سوال کا جواب آسان ہے۔ میانہ روی اختیار کریں۔ فیصلے کیلئے آپ سوچیں کہ اگر وہ نشے کا مریض نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے ہیں؟ پھر کتنا خرچ دیتے؟ زیادہ خرچ دینے سے مریض کو نشہ کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے لیکن خرچہ نہ دینے سے کوئی تحفظ نہیں ملتا۔ اگر مریض کے پاس پیسے نہ ہوں اور وہ نشہ کرنے کا فیصلہ کرلے تو پیسے حاصل کرنا اس کیلئے کوئی مشکل کام نہیں، اس کا اسے وسیع تجربہ ہے۔ پھر ایک اور بات بھی ہے کہ نشہ چھوڑنے کے بعد مریض کے پرانے دوست بے تابی سے اس کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ اگر مریض نشہ کرنے پر اترہی آئے تو پہلی دفعہ نشہ کرنے کیلئے اسے روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کو دوبارہ نشے کی دلدل میں گرانے کیلئے تو اس کے’’مہربان‘‘دوست ہی کافی ہیں۔نشہ بیچنے والے لوگ بھی ایسے مریضوں کی ہر خدمت کیلئے حاضر رہتے ہیں جو علاج کے بعد پھر نشہ کرنے کیلئے پر تول رہے ہوں۔ لہٰذا نشے کی بیماری کے حوالے سے توجہ اس طرف رکھیں کہ مریض بحالی کے تقاضے پورے کر رہا ہے یا نہیں؟ این اے میٹنگ میں جارہا ہے یا نہیں؟ ا س کا رہن سہن اور حرکات اعتدال کے دائرے میں ہیں یا نہیں؟ اس کے دل میںخوشحالی کی تمنا جاگی ہے یا نہیں؟ وہ مستقبل کی باتیں کرتا ہے کہ نہیں؟

آپ کا مریض نشے کے علاج میں سے گزرا ہے اور آپ کو اس پر شک ہورہا ہے۔ بار ہا آپ کو نشے کی علامتوں کا وہم ہوتا ہے۔ آپ کو خوف ہوتا ہے کہ کہیں وہ چوری چوری نشہ تو نہیں کررہا؟ آپ چاہتے ہیں کہ مریض آپ کی تسلی کرائے، آپ کے سکون کا بندوبست کرے۔ غصے میں آپ کی بے اعتمادی کو وہ نشے کا بہترین جواز بنا سکتا ہے۔ یہ کتنے ستم کی بات ہو گی۔
ہم آپ کے لئے متبادل راستے پیش کرتے ہیں۔ فی الحال آپ یہ دیکھیں کہ وہ نشہ کر رہا ہے کہ نہیں؟ آپ یہ دیکھیں کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ میٹنگ میں شمولیت، راہنما اور معالج سے اس کا رابطہ کیسا ہے؟ سلگن سے نپٹ رہا ہے کہ نہیں؟ جب کوئی مریض دوبارہ نشہ شروع کردیتا ہے تو یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ تاہم اس کتابچے کا حتمی پیغام یہ ہے کہ ریلیپس کا سانحہ ہونے سے پہلے ریلیپس کا پروسیس شروع ہوتا ہے، تمام تر توجہ اس پر دیں۔