تباہ کن اثرات

ایسے حالات میں جب مریض کی زندگی خطرے میں ہو یا مریض کے رویوں سے اہل خانہ پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہوں تو ’’کرائسز انٹروینشن‘‘ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کرائسز انٹروینشن میں ’’ماہر انسدادِ منشیات‘‘ اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مریض تک پہنچتا ہے اور اسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے۔

کرائسز انٹروینشن کے پسِ پردہ یہ نظریہ ہے کہ جب کسی گھر میں آگ لگی ہو تو’’دیکھنے اور انتظار کرنے‘‘ کی پالیسی ظالمانہ ہو گی۔ خاص طور پر پاکستان میں جہاں نشہ کرنا جرم بھی ہے اور اس جرم کی کڑی سزا مقرر ہے۔ علاج کیلئے مریض کی مرضی کا انتظار مناسب نہ ہو گا۔ نشے کی بیماری میں مریض تو نشہ کر کے دکھ پاتا ہی ہے باقی اہل خانہ بلا وجہ سزا بھگتتے ہیں۔ روم جل رہا ہو تو نیرو بیٹھا بانسری بجاتا رہے؟

ہمارے مذہب، معاشرے، خاندانی نظام اور حکومت میں کسی فرد کو کسی بھی حالت میں کسی بھی مقدار میں نشہ کرنے کی اجازت نہیں، کجا حالات ایسے ہوں کہ کوئی شخص اندھا دھند نشہ کر کے اپنی زندگی خطرے میں ڈالے ہوئے ہو اور اہل خانہ کو بھی جسمانی، نفسیاتی، معاشی اور روحانی طور پر نقصان پہنچا رہا ہو۔ ایسے میں کوئی سمجھدار انسان مریض کو گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کرائسز انٹروینشن جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کرائسز کی صورت میں کی جاتی ہے۔ اہل خانہ مریض کے حد سے زیادہ بگڑے ہوئے حالات ماہرانسدادِ منشیات کے سامنے رکھتے ہیں اور اسے اپنی ٹیم کے ہمراہ باقاعدہ انٹروینشن کی اجازت دیتے ہیں۔

Destructive Effects Pic

ماہرانسدادِ منشیات حالات کی تصدیق کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کرائسز انٹروینشن کا محرک محض مریض کے لئے نشے سے نجات ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور ناجائز مقاصد نہیں ہیں۔ کرائسز انٹروینشن خاص طورپر ان مریضوں کیلئے مناسب سمجھی جاتی ہے جو جسمانی طور پر انتہائی کمزور ہو چکے ہوں، خطرناک اور غیر قانونی حرکات میں ملوث ہوں، تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوں، اثاثے بیچ رہے ہوں اور علاج سے انکاری ہوں۔

ماہرانسدادِ منشیات تفصیلی منصوبہ بندی کے تحت اس کے قد بت، طاقت اور اکھڑ پن کے بارے میں اندازہ لگاتا ہے، سونے جاگنے کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتا ہے، اس کی عادت اورخصائل کے بارے میں جان کاری حاصل کرتا ہے، نشے کی مقدار اور قسم کا پتہ چلاتا ہے، اس کے پرتشد د رویوں کا تجزیہ کرتا ہے، مریض کی طرف سے دیگر خطرات کو پہلے سے بھانپتا ہے اور مریض کے بارے میں ان معلومات کو مناسب ترتیب دیتا ہے۔

ان سب پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرانسدادِ منشیات پانچ افراد پر مبنی ٹیم تشکیل دیتا ہے جو تربیت یافتہ اور تجربہ کار افراد پرمشتمل ہوتی ہے جنہیں اس کام کا طویل تجربہ ہوتا ہے اس میں دو افراد بحال شدہ مریض ہوتے ہیں، دو افراد نشے کی بیماری پر معقول معلومات رکھتے ہیں ٹیم کا سربراہ ایک ڈاکٹر ہوتا ہے جو نشے کی بیماری اور مریض کی فطرت اور مرض کی نوعیت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ یہ ٹیم اہل خانہ کے تعاون سے اس وقت مریض کے گھر پہنچتی ہے جب وہ سو رہا ہوتا ہے اوراسے نشہ کئے ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے ہوں۔ اہل خانہ ٹیم کی مریض تک راہنمائی کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ ٹیم کے افراد کمرے کا گہری نظر سے جائزہ لیتے ہیں، خاموشی سے ایسی چیزیں منظر سے ہٹا دیتے ہیں جن سے کوئی مشکل پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ اُس کے بعد ٹیم کے ارکان مریض کے اردگرد ترتیب سے بیٹھ جاتے ہیں۔

اہل خانہ حسب ہدایت مخل نہیں ہوتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کام میں کچھ وقت لگتا ہے۔ وہ صبرسے کرائسز انٹروینشن کے نتائج کا انتظار کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ مریض محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اگر مریض کو نشے کے زہریلے اثرات سے بچانا ہے تو دل کو مضبوط رکھنا ہو گا۔ کرائسز انٹروینشن میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ اس موقع پر جذباتی افراد کو گھر سے بھیج دیا جاتا ہے۔ بچے اُس وقت سو رہے ہوں تو بہتر ہے۔ اگر گھر میں نشے کا کوئی اور مریض بھی ہو تو اسے اس منصوبے کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی جاتی ورنہ وہ اس منصوبے کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔

First Reaction Pic

پہلا رد عمل

ٹیم کا سربراہ ملائمت سے مریض کو جگاتا ہے، احترام کے ساتھ اپنا تعارف کرواتا ہے اور آمد کا مقصد بیان کرتا ہے۔ ایک لمحے کو مریض ہکا بکا نظر آتا ہے لیکن جلد ہی وہ گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ اپنا پہلا رد عمل دیتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل میں سے ایک ہوتا ہے ۔

 یہ دیکھتے ہوئے کہ فیصلے کی قوت اُس کے پاس نہیں ہے فوری طور پر ساتھ جانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔

 مریض چاہتا ہے کہ اسے قائل کیا جائے۔ ٹیم کے ارکان خاص طور پر بحال شدہ افراد اپنی مثال کے حوالے سے اسے قائل کرتے ہیں۔ مریض تھوڑی بہت کج بحثی کرتا ہے۔ علاج کی ضرورت سے انکار کرتا ہے۔ پھر اچانک قائل ہو جاتا ہے۔

 مریض بغاوت پر اتر آتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ مجھے کون لے جا سکتا ہے، اپنے گھر والوں کو برا بھلا کہتا ہے اور اُ نہیں بلانے پر اصرار کرتا ہے۔ ایسے میں ٹیم کے ارکا ن اتنی مہارت سے انجیکشن دیتے ہیں کہ اسے پتا بھی نہیں چلتا اور انجیکشن لگ چکا ہوتا ہے۔ انجیکشن لگنے کے بعد مریض مزاحمت چھوڑ دیتا ہے۔ انجیکشن کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اُس کی بغاوت اور غصہ سرد ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ تبادلہ خیال پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اگر مستقل مزاجی سے اسے قائل کرتے رہیں تو وہی مریض جو تھوڑی دیر پہلے منہ سے آگ نکال رہا تھا ملائمت سے بات کرنے لگتا ہے اور رضا مند ہو جاتا ہے۔

تباہ کن واقعات

کرائسز انٹروینشن میں بھی عام انٹروینشن کی طرح اصرار کے ساتھ ساتھ نشے کے تباہ کن واقعات کو دہرایا جاتا ہے۔ یہ تباہ کن واقعات منصوبہ بندی کے دوران اہل خانہ سے معلوم کئے جاتے ہیں اور کرائسز انٹروینشن کے دوران ناقابل تردید شواہد کے ساتھ ترتیب وار مریض کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔کرائسز انٹروینشن میں کامیابی کی شرح 100 فیصد ہے بشرطیکہ تمام احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اکثر لوگ فکر مند ہوتے ہیں کہ اگر مریض رضا مند ہی نہ ہو تو علاج میں کامیابی کیسے ممکن ہو گی؟

علاج کے ابتدائی حصے میں مریض کی رضا مندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ابتدائی چند دنوں میں مریض کی تکلیفوں کا علاج کرتے ہوئے معالج کے پاس کافی موقع ہوتا ہے کہ وہ خدمت اور مہارت کے ذریعے مریض کا دل جیت لے۔ نشے کا مریض ذہین انسان ہوتا ہے۔ وہ ہمدرد رویوں کو پہچانتا ہے اور اُن کی قدر کرتا ہے۔ نشے کے مضر اثرات ختم ہونے کے ساتھ ساتھ مریض کے خیالات میں تبدیلی آتی ہے۔ جس اسٹیج پر مریض کی رضا مندی کی ضرورت ہوتی ہے

Catastrophic Events Pic

اس سے بہت پہلے مریض مائل ہو چکا ہوتا ہے۔ تمام ذہنی تحریک ایک بیرونی عمل ہے۔ ماہرین جانتے ہیں کہ مریض میں تبدیلی کا عمل کیسے برپا کیا جاتا ہے؟کرائسز انٹروینشن کے دوران ٹیم کا برتاؤ بھی اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ بعد ازاں مریض تعاون کرے گا یا نہیں۔ اگرمریض کو یہ تاثر نہ دیا جائے کہ اسے فتح کیا جا رہا ہے تو مریض نہ صرف بعد میں تعاون کرتا ہے بلکہ دل سے ممنون ہوتا ہے کہ جو فیصلہ میں خود اپنے لئے نہ کر سکا وہ کچھ دردِ دل رکھنے والوں نے میرے لئے کیا اکثر دیکھنے میں آیا ہے

کہ جس مریض کو اُس کی مرضی کے خلاف گھر سے لایا گیا وہی چند دن میں پورے جوش و جذبہ سے بحالی کی منزلیں طے کرتا ہے اور وہ مریض جو خود اپنی مرضی سے ’’توبہ توبہ‘‘ کرتا آیا تھا علاج میں آنے کے 24 گھنٹے بعد ہی حیلے بہانے چھٹی کرنا چاہتا ہے۔ عام دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مریض جس مدت کیلئے رضامندی سے کلینک میں آتا ہے تو وہ مدت پوری نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نشہ کرتے ہوئے مریض کی مرضی کچھ اور ہوتی ہے اور نشہ چھوڑتے ہوئے کچھ اور۔ ایک ’’حالت‘‘ کا فیصلہ دوسری ’’حالت‘‘ پر لاگو نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جو مریض بحالی کی شمع روشن کئے ہوتے ہیں اُن میں کثیر تعداد اُن مریضوں کی ہے جو شروع میں مرضی کے خلاف گھر سے لائے گئے تھے۔