عام غلطیاں

نشے کی بیماری منفرد ساخت کی ہے۔ یہ اانتہائی پیچیدہ، دائمی، نفسیاتی، معاشرتی و روحانی مرض ہونے کے علاوہ عیار اور طاقت ور بیماری ہے۔ عمومی امراض میں مریض کے ساتھ ساتھ اس کے قریبی لوگ بھی فکر مند ہوتے ہیں۔ نشے کے بیماری میں ایسا نہیں ہوتا۔ سرجری اور ویکسین سے بھی اس موذی مرض کا علاج ناممکن ہے۔ اس بیماری کا علاج ٹوٹکوں سے بھی ممکن نہیں۔ لہذا بین الاقوامی طور پر رائج علاج کو اپنانا نا گزیر ہے۔

اس کے لئے مریض کے علاوہ اس کے اہلِ خانہ کو بھی تفصیلی مطالعے اور عمدہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ نشے کے مرض میں مبتلا شخص کے قریبی لوگ اس بیماری کے بارے میں علم خاصل کریں کیونکہ مطلوبہ تربیت کے بغیر وہ مریض کو مستقل اور حقیقی مدد نہیں دے سکتے اور ان آٹھ غلطیوں کو دہراتے رہتے ہیں جس سے نشے کا مریض نشہ تو نہیں چھوڑتا بلکہ دن بدن اس دلدل میں مزید دھنستا جاتا ہے۔

Common Mistakes Pic

پہلی غلطی

جب مریض دی گئی ذمہ داریاں پوری نہیں کرپاتا تو اہل خانہ اس پہ غصہ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مریض کو اس کی بیماری یہ بوجھ اٹھانے کی اجازت دیتی ہے؟ یقیناً نہیں، جب تک مریض نشے کے استعمال سے دور نہیں ہوتا تب تک اسے ذمہ داریا ں دینا اور انہیں پورا کرنے کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔

دوسری غلطی

مریض کے نشے کی مقدار میں ظاہری کمی سے یہ سمجھ لینا کہ مریض نے نشہ چھوڑ دیا ہے۔ نا سمجھی ہے۔ اکثر اوقات مریض کے روئیے میں چڑچڑے پن میں کمی سے اہل خانہ یقین کر لیتی ہیں کہ وہ کافی بہتر ہو گیا ہے۔ نشے کے استعمال میں کمی کا یہ دور آخر کار شدید مسائل میں تبدیل ہو جاتا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نشے کی بیماری سے نکلنا، اس قدر آسان نہیں۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اب تک ہو چکا ہوتا۔

تیسری غلطی

مریض کی غلطیوں کے لئے ذمہ داریاں قبول کرنا اور دوسروں سے معذرت کرنا۔ مریض کی طرح اہل خانہ بھی حقیقت حال کا اعتراف کرنے کی بجائے خود فریبی کے زیر اثر مریض کی غلطیوں کیلئے جواز پیش کرتے ہیں۔ یہ معاونت کا طرزعمل ہے۔ جو مریض کا نشہ جاری رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

چوتھی غلطی

نشے کے دوران مریض سے بحث مباحثہ کرنا۔ کسی ایسے شخص کے سامنے غصے کا اظہار کار لاحاصل ہے۔ جس کا دماغ طاقت ور کیمیائی مادوں سے بری طرح متاثر ہو۔ اہل خانہ کے دلائل کتنے ہی ٹھوس کیوں نہ ہوں، مریض نہیں کبھی نہیں سنتا، محض مشتعل ہو سکتا ہے اور مزید نشہ استعمال کر سکتا ہے۔

پانچویں غلطی

اہل خانہ کا عام لوگوں سے مشورہ لینا جو بیماری کے بارے میں قطعاً نہیں جانتے۔ قریبی دوست واحباب کا اس بیماری کے بارے میں علم مریض کے اہل خانہ سے بھی کم ہوتا ہے پھر ان سے مشورہ کیا بہتری لائے گا؟ جب ان کے مشوروں پہ عمل نہیں کیا جاتا تو تعلقات میں سرد مہری آ جاتی ہے اور اہل خانہ کی تنہائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

چھٹی غلطی

اہل خانہ اپنی ذہنی صحت پر شک کرنے لگتے ہیں۔ چونکی اہل خانہ حقیقی معلومات کے حصول میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لئے مریض کی تنقید دل پر لیتے ہیں۔ یہ اہل خانہ کی ان خواہشات کا فطری ردعمل ہوتا ہے جو وہ مریض سے وابستہ کر لیتے ہیں۔ مریض نشہ چھوڑ بھی دیں تو اہل خانہ اپنی نفسیاتی حال سے خود باہر نہیں آ سکتے۔ انہیں اس ذہنی دباوّ سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کسی ماہر نفسیات سے مدد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ساتویں غلطی

مریض قانون توڑنے پر جیل جائے تو اہل خانہ فوری طور پر اسے چھڑانے پہنچ جائیں، تب اسے اپنی غلطی کا احساس کیوں کر ہو گا؟ جب تک مسائل پیدا ہونے کی اصل جڑ یعنی نشے کے علاج کا کچھ نہ کیا جائے تب تک مسائل یونہی موجود رہیں گے۔ اہل خانہ کی جانب سے مریض کو نقصان سے بچانے کی یہ کوشیشیں محض نادانی ہے۔

آٹھویں غلطی

باقاعدہ پیشہ ورانہ مدد خا صل کئے بغیر مسائل حل کرنے کی کوشیش کرنا۔ جب تک اہل خانہ حقیقی رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، ان کا تنہا ہونا باعث حیرانی نہیں ہے۔ محض قریبی دوست احباب سے سرگوشیوں میں اس مسئلے کا اظہار کرنا بے معنی ہے۔ ان خالات میں اہل خانہ کیلئے مسائل بدستور بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اہل خانہ مریض کے ساتھ پیش آنے والے واقعات وحادثات کو اپنے لئے خدا کی طرف سے سزا سمجھتے ہیں۔ در حقیقت یہ نشے کی بیماری کا فطری ردِ عمل ہے۔ یہ مسائل ہر اس گھر میں نظر آتے ہیں۔ جہاں نشے کے استعمال کا مسئلہ موجود ہو۔ اہل خانہ ان آٹھ غلطیوں کو جان کر آئندہ محبت بھری گرفت کے اصولوں پر عمل کر کے اپنی اور اپنے پیارے کی زندگی میں نئے سرے سے خوشحالی لا سکتے ہیں۔