لنک-2

ہم تو ڈوبے ہیں صنم

بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نِکلے

کچھ ہی دیر میں وہ اپنے بہت گہرے دوست بنٹی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے، بنٹی ایک بہت مشہورِ زمانہ فزیشن کا بیٹا ہے اور امیر خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ پپو بیگ کے وزن سے تھک چکا ہے ۔ بنٹی دراوزے پر آتا ہے اور پپو کو وہاں دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے۔

’’میں گھر سے بھاگ آیا ہوں، کیا میں یہاں رہ سکتا ہوں؟‘‘ پپوکے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔
’’اوہ! تم گھر سے بھاگ آئے ہو‘‘ وہ متجسس انداز میں کہتا ہے۔
’’اندر آجاؤ۔‘‘ بنٹی کہتا ہے ۔
وہ اُس کو چپکے سے اپنے کمرے میں لے جاتاہے اور ڈیک اونچی آواز میں چلا دیتا ہے تاکہ اس کے والدین اُن کی گفتگو نہ سن سکیں۔

’’میرا بھی دل چاہتا ہے کہ تمہارے ساتھ گھر سے بھاگ جاؤ‘‘ بنٹی کہتا ہے۔
’’ہاں کیوں نہیں ؟ تم کیوں نہیں بھاگ سکتے ، اس میں تو بہت مزہ آئے گا۔ ہم دونوں اکٹھے بھاگیں گے اور بہت انجوائے کریں گے۔ ہمت کرو اور سامان باندھو، میں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘ پپو بنٹی کی ہمت بندھاتے ہوئے کہتا ہے۔پپواب پہلے سے بہتر محسوس کر رہا ہے۔

’’ہرگز نہیں آخر ہم سوئیں گے کہاں؟‘‘ بنٹی پریشانی کے عالم میں پوچھتا ہے۔
’’ہم کوئی نہ کوئی جگہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘پپو اُسے تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے۔

’’کیا مطلب؟ ہم کیسے جگہ ڈھونڈ لیں گے، تمہیں جگہ چاہئیے تو تم میری طرف آگئے اور اگر ہم یہاں سے چلے گئے تو پھر کس کے گھر جائیں گے؟ ‘‘بنٹی مزید پوچھتا ہے۔
’’ہمیں کسی گھر کی ضرورت نہیں ہے، ہم باہر کہیں بھی خیمہ لگا کر سو جائیں گے۔۔۔ بہت مزہ آئے گا‘‘پپو انگڑائی
لیتے ہوئے کہتا ہے۔

’’عقل کے اندھے۔۔۔ باہر تو بہت سردی ہے اور پھر کتنے سال ایسا کرو گے؟آخر ہم کھائیں گے کہاں سے؟ ‘‘ بنٹی سوالات کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔

’’بھئی ہم اپنے ہی گھر سے جب وہاں کوئی موجود نہ ہو کھانا چوری کرسکتے ہیں۔‘‘پپو بنٹی کو دلاسہ دیتے ہوئے کہتا ہے۔پپو سوچ رہا ہے کہ وہ بنٹی کو منا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ،اصل میں وہ اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔
’’سنو !میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں مگر میں تمہارے ساتھ جانے کے لیے تیار نہیں ہوں، چلو چل کر میری امی سے پوچھتے ہیں کہ تم یہاں رات رُک سکتے ہو یا نہیں؟ ہم اُنہیں کہیں گے کالج کے کسی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں ۔ ‘‘بنٹی کہتا ہے۔

ان کا یہ منصوبہ کارآمد ثابت ہوتا ہے اور باقی کی ساری رات پپو کو بنٹی کے والدین دوبارہ نظر نہیں آتے۔ویڈیو گیم کھیلتے کھیلتے ایک دم بنٹی رُک جاتا ہے اور پپو سے پوچھتا ہے۔
’’تم کیا سمجھتے ہو جب انہیں تمہارے بھاگنے کا معلوم ہو گاتو تمہارے گھر والے کیا سوچیں گے،‘‘بنٹی سمجھاتے ہوئے پوچھتا ہے
۔پپو لاجواب ہو جاتا ہے۔
’’وہ یقیناًغصے میں اور گھبرائے ہوئے ہوں گے کیونکہ تمہارے اس قدم نے انہیں خوفزدہ کر دیا ہوگا‘‘ بنٹی کہتا ہے۔ ’’کیا تم پریشان نہیں ؟‘‘بنٹی پپو کے چہرے کی طرف بغور دیکھتے ہوئے پوچھتا ہے۔
’’نہیں تو!‘‘ پپو جھوٹ بولتا ہے۔

’’کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ اپنے آپ کو کوس رہے ہوں گے کہ وہ تمہارے ساتھ بہتر رویہ رکھتے تو اچھا تھا؟۔وہ تمہاری اس حرکت پرخود کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہوں گے، یا پھر تمہیں ایک بگڑا ہوا بچہ سمجھ رہے ہوں گے؟‘‘بنٹی پپو سے پوچھتا ہے۔
کافی دیر بعد جب پپو سونے کیلئے لیٹا تو یہ سب سوال یعنی ’’تمہارے گھر والے کیا محسوس کر رہے ہوں گے؟‘‘
اُس کے ذہن میں پھر سے ابھرنے لگتے ہیں۔ ’’کیا آج رات بھی تم مجھے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دو گے؟‘‘
صبح سویرے پپو بنٹی کے ساتھ بس سٹاپ کی طرف جانے لگا تو راستے میں پُرامید لہجے میں اُس نے بنٹی

صبح سویرے پپو بنٹی کے ساتھ بس سٹاپ کی طرف جانے لگا تو راستے میں پُرامید لہجے میں اُس نے بنٹی سے پوچھا۔ ’’سنو! میں کسی مصیبت میں پھنسنا نہیں چاہتا، کیا تم کسی اور کے ساتھ نہیں رہ سکتے؟‘‘بنٹی نے بڑی مشکل سے جواب دیا۔

اسی طرح دوستوں کے گھر والوں سے مختلف بہانے کرتے ہوئے پپو کو تین دن گزر جاتے ہیں یعنی تین دن اور تین مختلف دوست۔ پپو کو اپنے اِن سب دوستوں پہ بڑا مان ہوتا ہے، اُس کا خیال ہے کہ اُس نے ان دوستوں کے لیے اتنا کچھ کیا ہے کہ جب کبھی بھی اُسے ضرورت پڑے وہ دل و جان سے مدد کے لیے تیار ہوں مگر اس کا اپنے دوستوں پر اعتماد پاش پاش ہوگیا۔ وہ اُن کے رویوں پر بہت افسردہ ہوتا ہے۔

اُس کا ہر دوست ایک رات پپو کو اپنے گھر ٹھہرا کر پھر کچھ پیسے دے کر گھر سے رخصت کر دیتا ہے۔ اس طرح تین دنوں کے اختتام پر اُس کے پاس چار ہزار روپے روپے جمع ہوگئے جو کہ آنے والے چند دنوں کے لیے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔
پپو سوچتے ہوئے ببلو کے گھر کی طرف بڑھتا ہے جو کہ فیصل آباد کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کا بیٹا ہے۔ ببلو بھی پپو سے گہری دوستی کا دم بھرتا ہے اور پپو ببلو کے ہاں ایک رات قیام کرتا ہے۔ صبح سویرے اُٹھ کر وہ ببلو کے فیملی ممبرز کے ساتھ ناشتہ کرتا ہے۔

’’لڑکو! تمہارا پراجیکٹ کیسا جا رہا ہے؟‘‘ ببلو کی ماں دونوں سے استفسار کرتی ہیں۔
ببلو کی والدہ جو ایک پولیس آفیسر کی اہلیہ ہیں اور جو مستقبل میں آنے والے خطرات کے بارے میں کچھ شکوک رکھتی ہیں۔ ابھی پپو جواب دینے کیلئے لب کھولتا ہے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجتی ہے، ببلو کی والدہ فون اٹھاتی ہیں ، ہیلو کہتی ہیں اور پھر پپو پر شک بھری نظر ڈالتی ہیں۔

’’اچھا! تو یہ بات ہے!‘‘ ببلو کی والدہ فون پر کہتی ہیں۔
اب ببلو کی والدہ پپو کو گھورنا شروع کر دیتی ہیں۔
’’پپو یقیناًیہیں ہے۔‘‘ وہ جواب دیتی ہیں۔
پپو یہ گفتگو سنتے ہی اپنے بیگ پر جھپٹتا ہے اور تیزی سے دروازہ کھول کر فرار ہو جاتا ہے۔ سڑک پربھاگتے بھاگتے اُس کی سانس پھول جاتی ہے۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ سانس لینے کے لیے ایک گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا ہے۔
’’تمہارے گھر والے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘ ایک آواز آتی ہے۔

وہ لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے سر اُٹھاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا ایک پڑوسی تشویش کے ساتھ اُس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ پپو اُس کو دیکھتے ہی اُلٹے پاؤں بھاگ پڑتا ہے اور بالآخر ایک عمارت کے عقب میں چھپ جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ محسوس کرتا ہے کہ سڑک پر خاموشی چھائی ہوئی ہے اور رات گہری ہوتی جا رہی ہے، وہ بڑے محتاط انداز میں قدم اٹھاتا ہے اور اپنے گردونواح کا جائزہ لیتا ہے۔ بادل چھانے لگتے ہیں اور پورے شہر میں اندھیرے کی چادر بچھ جاتی ہے ۔ سورج کی روشنی مدھم ہوتے ہوتے اب مکمل طور پر غائب ہو جاتی

وہ لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے سر اُٹھاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا ایک پڑوسی تشویش کے ساتھ اُس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ پپو اُس کو دیکھتے ہی اُلٹے پاؤں بھاگ پڑتا ہے اور بالآخر ایک عمارت کے عقب میں چھپ جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ محسوس کرتا ہے کہ سڑک پر خاموشی چھائی ہوئی ہے اور رات گہری ہوتی جا رہی ہے، وہ بڑے محتاط انداز میں قدم اٹھاتا ہے اور اپنے گردونواح کا جائزہ لیتا ہے۔ بادل چھانے لگتے ہیں اور پورے شہر میں اندھیرے کی چادر بچھ جاتی ہے ۔ سورج کی روشنی مدھم ہوتے ہوتے اب مکمل طور پر غائب ہو جاتی ہے۔ خاموش عمارتیں، خالی گلیاں یہاں تک کہ ہر چیز سرمئی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ پپو کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کوئی بلیک اینڈ وائٹ فلم دیکھ رہا ہو، یہاں تک کہ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بھی اُجڑااُجڑا سا نظر آ رہا ہے۔

پپو کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ اب کیا کرے ؟ جبکہ اُس کے اہل خانہ شہر میں ہر شخص سے رابطہ کرکے پپو کے بارے میں کرید کرید کر پوچھ رہے ہیں۔ اُس کے دوست پپو کی مدد کرنے کی بجائے اس پریشانی میں ہیں کہ کہیں اس کی وجہ سے وہ بھی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔ بہرحال پپو اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ گھر سے بھاگنا پپو کا ذاتی فیصلہ ہے اور اُسے اپنے اوپر ہی انحصار کرنا چاہئیے۔ پپو کو اپنے دوستوں کی اب کوئی پرواہ نہیں اور وہ اچانک شہر سے غائب ہو کر اُن کو حیران و ششدر کرنا چاہتا ہے۔

پپو کے لیے اب فیصل آباد چھوڑنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ پپو اپنی آنکھوں کو زور سے بند کرتے ہوئے سوچتا ہے اور اپنے ذہن پر زور دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ پپو کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر صداقت علی نشئی رویوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ویڈیو دیکھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے۔

آپ کے خیال میں پپو کیا کرے گا؟

وہ عقلمندی کا ثبوت دے گا اور سیدھا گھرلوٹ جائے گا۔اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تولنک-6 پر جائیے۔
پپو کسی شاہراہ پر جا کر شہر سے باہر جانے کے لیے کسی گاڑی سے لفٹ لے گا۔ اگر آپ کے خیال میں پپو ایسا کرے گاتو لنک-7 پر جائیے۔