لنک-21

بس کے دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا ۔۔۔۔۔۔ کریدتے ہو جو اَب راکھ جستجو ہو گی

پپو چلتا ہوامیکڈونلڈزکے داخلی دروازے تک پہنچتا ہے اور ایک شخص کو اندر جاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اُس کا چہرہ کشادہ اور دوستانہ ہے، ہلکے نسواری گھنگھریالے بال جو کنپٹیوں پر سے سفیدی مائل اور گھنی کھچڑی بھنویں ہیں۔ وہ بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ پپو کیلئے دروازہ تھام لیتا ہے اور کہتا ہے۔’’میرا نام سلطان ہے، کیا تم میرے ساتھ مل کر برگر کھانا پسند کرو گے۔‘‘
’’یقینا‘‘ پپو نے برجستہ کہا۔
کھانے پر وہ شخص کچھ احمقانہ باتیں کرتا ہے۔ پپو آرام سے اپنا برگر کھاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اُس کے کانوں سے باہر کی طرف اُگنے والے بالوں پر غور کرتا ہے۔ پپو کی گردن میں درد ہے ۔ وہ تھوڑا سا پیچھے ہو کر آرا م حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی گردن کو دباتا ہے۔

’’تم تھکے ہوئے لگ رہے ہو‘‘ سلطان نے پوچھا۔
’’ہاں ایسا ہی ہے تھکن سے چور ہوں‘‘ پپو نے جواب دیا۔
’’میں بہت اچھا مساج کرتا ہوں، کیا تم میرے گھر چلنا پسند کرو گے؟‘‘ سلطان نے پُرجوش مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
پپو ہچکچاتا ہے۔
’’بس تھوڑا سا ساتھ اور ایک اچھا اور پُرسکون مساج، کیا خیال ہے؟‘‘ سلطان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

تھوڑی ہی دیر میں سلطان اور پپو گلبرگ کے ایک بہت بڑے گھر کے سامنے موجود ہیں۔ گھر کی بیرونی اور اندرونی دیوار سبزے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ گھر کا ایک دروازہ سلطان کے دفتر میں کھلتا ہے جس میں سے گزر کر وہ دونوں اندرپہنچ جاتے ہیں۔
اُس کمرے میں عجیب و غریب ساخت کی ایک میز پڑی ہے۔ سلطان کے کہنے پر پپو اُس میز پر چڑھ جاتا ہے اور پیٹ کے بل لیٹ جاتا ہے۔ یہ عجیب و غریب میز حقیقت میں بہت آرام دہ ہے، جو کہ خاص طور پر انسانی جسم کے مطابق تیار کی گئی ہے۔

’’چلو ذرا اپنے کپڑے ڈھیلے کرلو‘‘ سلطان پپو سے کہتے ہوئے اُس کے جوتے اُتارتا ہے اور پھر اُس کی جینز کو پکڑتا ہے۔
پپو اپنے کپڑوں کے اترنے پر تھوڑا سا بے چین دکھائی دیتا ہے۔
سلطان اُس کی ٹانگوں پر مساج کرنا شروع کرتا ہے۔
آہستہ آہستہ پپوسکون محسوس کرنا شروع کر تا ہے۔ اب پپو کو واقعی مزہ آنے لگتا ہے اور وہ سکون سے گہرے گہرے سانس لیتا ہے۔
’’کیا یہ صحیح ہے………… اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دو‘‘ سلطان کہتا ہے۔
’’ مجھے تمہارے پٹھوں میں پہلے ہی واضح فرق محسوس ہور ہا ہے‘‘ پھر سلطان پپو کے کندھوں اور گردن کا مساج کرتا ہے۔

’’پلٹ جاؤ‘‘ سلطان کہتا ہے۔

پپو کو سلطان کا اس طرح اپنے سر پر کھڑا ہونا کچھ ناگوار محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ سلطان اُس کے بازوؤں اور کندھوں کا مساج کرتا ہے۔ پپو پر غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔ یکایک پپو کو سلطان کا ہاتھ اپنے انڈرویئر کی طرف بڑھتا محسوس ہوتا ہے اور وہ ایک دم سے الرٹ ہو جاتا ہے۔ سلطان بہت آرام سے پپو کو دوبارہ لٹا دیتا ہے اور آنکھیں بند کرنے کو کہتا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہوئے پپو سلطان کو اپنے کپڑے اتارتے ہوئے بھی دیکھ لیتا ہے۔

’’حوصلہ کرو، تمہیں یہ سب بھی اچھا لگے گا‘‘ وہ اُس کے ساتھ بہت آرام سے کھیلتا ہے۔ پپو یہ سب دیکھنا نہیں چاہتا، اس لیے اپنی آنکھیں بند رکھتا ہے۔ سلطان پپو سے کچھ بھی کرنے کو نہیں کہتا۔ جب وہ فارغ ہو جاتا ہے تو خاموشی سے اپنے کپڑے پہن لیتا ہے۔ پپو بھی ایک کرسی پر بیٹھ کر اپنے کپڑے پہنتا ہے۔
’’تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی‘‘ سلطان کہتا ہے۔پپو جواب نہیں دیتا ’’میں تمہارا دوست نہیں بننا چاہتا، مجھے قیمت ادا کرو‘‘
سلطان پپو کو کچھ روپے دیتا ہے اور واپس میکڈونلڈزپر چھوڑ دیتا ہے سارے راستے وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے اُس کا دل بہلانے کی کوشش کرتا ہے۔
’’تو اب تم کیا کرنا چاہتے ہو، کیا تم کالج جانا چاہتے ہو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں کیونکہ لمزیونیورسٹی میں میرے کچھدوست بہت اچھی پوزیشن پر کام کررہے ہیں۔‘‘

’’میں اداکار بننے کے بارے میں سوچ رہا تھا‘‘ پپو سلطان کو بتاتا ہے۔
’’میں لالی وڈ میں بھی بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں‘‘ سلطان نے کہا۔
’’کہاں پر۔۔۔‘‘ پپو نے پوچھا۔
’’فلم انڈسٹری میں، جہاں تفریح فراہم کی جاتی ہے۔۔۔ تمہیں پتا ہے پروڈیوسر، ڈائریکٹر، رائیٹر۔۔۔ یہ سب میرے پاس آتے ہیں‘‘ سلطان نے کہا۔
سلطان پپو کو اپنا کارڈ دیتا ہے جو کہ دیکھنے میں بہت سادہ ہے اور اُس پہ صرف ’’ڈاکٹر سلطان‘‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔ سلطان پپو کو رابطے میں رہنے کے لیے کہتا ہے۔

دو دن بعد پپو کی آنکھ پھر ایک ہوٹل میں کھلتی ہے۔ حسبِ معمول وہ بھوکا ہے اور اُس کا دل بھی فورٹ روڈ پر کھڑے ہونے کو نہیں چاہ رہا۔ وہ اپنی جیب ٹٹول کر ڈاکٹر سلطان کا کارڈ نکالتا ہے اور فون کرنے کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس اثناء میں اُسے غلاظت کا احساس ہوتا ہے لیکن اپنے اس خیال کو وہ پسِ پشت ڈال دیتا ہے اور سلطان کو کال کرتا ہے۔ وہ پپو کو شام چھ بجے کا ٹائم دیتا ہے۔
پچھلی دفعہ پپو سلطان کے دفتر میں تھا مگر اس دفعہ سلطان گھر کا داخلی دروازہ کھولتا ہے
’’دنیا کی دوسری بہترین جگہ میں خوش آمدید‘‘ سلطان خوشی کا اظہارکرتے ہوئے کہتا ہے۔

پپو ایک دلکش لونگ روم میں داخل ہوتا ہے جو خوبصورت سامان سے مزین ہے، چھت ڈھلوان کی صورت میں ہے، جس پر ایک بہت بڑا اور خوبصورت شیشے کا فانوس بھی نصب ہے۔ لونگ روم کے ایک کونے میں ایک چمکدار کالے رنگ کا پیانو اپنی جانب توجہ مبذول کراتا ہے۔

لونگ روم کے دوسرے کونے پر بیٹھنے کے لیے الگ جگہ بنائی گئی ہے جس میں بہت سے آرام دہ صوفے اور کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ ساتھ ہی ایک بہت بڑی ٹی وی کی سکرین، سپیکرز اور ڈی وی ڈی پلیئر رکھا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ میں کوئی نہیں رہتا۔ پپو سوچتا ہے۔ شاید اس شخص کے پاس بہت پیسہ ہے جسے وہ یوں اُڑا رہا ہے۔

سلطان، پپو کو بہت انہماک سے لونگ روم کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھتا ہے۔
اور کہتا ہے۔
’’میری بیوی نے طلاق سے پہلے اس کمرے کو سجایا تھا، بعد میں وہ اِن چیزوں کو بدلنا چاہتی تھی جبکہ

میرے پاس اِن کو بدلنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘‘سلطان اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے۔

اس لونگ روم کے سائیڈ پر ایک اور چھوٹا کمرہ تھا جسے لونگ روم کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔جس میں پڑے کاؤچ کے اردگرد اخبارات بکھرے پڑے تھے اور تکئے بھی بے ہنگم طریقے سے پڑے ہوئے تھے۔ ایک خالی گلاس کافی کی میز پر پڑا تھا جس کے پاس کافی کے مگ کا گہرا نشان پڑا تھا۔ایک سائیڈ پر ٹی وی سیکشن تھا جس میں بڑے سے ٹی وی کے سامنے ایک چھوٹی میز پر میگاگیم پڑی تھی۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ پپو متجسس انداز میں ہنستے ہوئے کہتا ہے۔
’’تم گیم شروع کرو، کیا میں تمہارے لئے کوئی مشروب لے آؤں،بیئر، وسکی، کچھ بھی؟‘‘سلطان میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہتا ہے۔
’’جیسے آپ کی مرضی‘‘ پپو جھجکتے ہوئے کہتا ہے۔
جب سلطان گرم گرم پیزا اور ٹھنڈی کوک لے کر آیا تو اُس نے پپو کو کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں مشغول پایا۔
’’نہیں نہیں، تم مصروف رہو‘‘ سلطان ایک صوفے پر بیٹھ کر پپو کو گیم کھیلتے ہوئے دیکھنے لگا۔
گیم سے فارغ ہو کر پپو سلطان سے پوچھتا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ پپو اندازہ لگاتا ہے کہ سلطان اس کا مساج کرنا چاہتا ہے۔
’’تم کھیل کو جاری کیوں نہیں رکھتے‘‘ سلطان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

پپو پھر سے کھیل میں مشغول ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اُسے سلطان کے ہاتھ اپنی جینز پہ محسوس ہوتے ہیں۔ پپو اُٹھ کے بیٹھ جاتا ہے تو سلطان اُسے کھیل جاری رکھنے کو کہتا ہے۔ سلطان اُس کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے۔ یہ ایک انوکھا اور عجیب تجربہ ہے۔ فارغ ہونے پر سلطان، پپو کو اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر لے جاتاہے۔ وہاں پر پپو بہت زیادہ شراب پیتا ہے جس سے وہ ٹُن ہو جاتا ہے اور سلطان کے گھر واپس آتے ہی بستر پر دراز ہو جاتا ہے۔

سلطان نیلے رنگ کے سلیپنگ سوٹ میں ملبوس پپو کیلئے صبح کے ناشتے میں کافی کا ایک کپ اور کڑاہی گوشت تیار کر رہا ہے جس کی خوشگوار مہک سے پپو کی آنکھ کھلتی ہے۔ جب وہ پپو کو اُٹھتے ہوئے دیکھتا ہے تو اُس کے لیے ایک گلاس پانی اور دو ایسپرین کی گولیاں لے کر آتا ہے۔
پپو ناشتے کے بعد سلطان سے جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔
سلطان برتن اکٹھے کرتے ہوئے پوچھتا ہے ’’اتنی جلدی جا رہے ہو اور ویسے تم جاؤ گے کہاں؟‘‘
’’اور تم یہاں میرے پاس کچھ دن کیوں نہیں ٹھہر جاتے، میں تمہیں اپنے کچھ دوستوں سے ملوانا چاہتا ہوں جو کہ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہیں۔
مجھے تم نے بتایا تھا کہ تم ایکٹر بننا چاہتے ہو، ہے نا!‘‘
’’شاباش! تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ جاکر نہا لو، غسل خانے میں ایک نیا تولیہ تمہارے لیے رکھ دیا ہے۔‘‘

’’کیا میں یہ کہنے میں صحیح ہوں کہ تمہارے پاس کوئی اور کپڑے نہیں ہیں‘‘ سلطان نے پوچھا۔
’’ہاں یہ بات صحیح ہے‘‘ پپو نے تائید کی۔
’’اس بارے میں ہم آج شام کو کوئی حل نکالیں گے۔ فی الحال میں نے تمہارے سائز کی ایک جینز تولئے کے ساتھ رکھ دی ہے۔‘‘ سلطان نے کہا۔

پپو سوچتا ہے کہ سلطان کے پاس اُس کے سائز کے کپڑے کہاں سے آئے؟ ایک ہفتے کے اندر اندر پپو سلطان کے ساتھ اُس کے گھر میں سیٹ ہو جاتا ہے۔ صبح کے وقت پپو ٹی وی دیکھتا جس سے کبھی کبھار وہ بوریت کا شکار بھی ہو جاتا مگر اُسے دفتر میں جانے کی اجازت نہ تھی جہاں سلطان سارا دن مریض دیکھتا ہے۔ سلطان معمول کے مطابق کھانے کے وقت تھوڑی دیر کے لیے لونگ روم میں آتا اور پھر سات بجے تک دوبارہ کام میں مشغول ہو جاتا۔ اگر کبھی سلطان اتفاق سے کچھ زیادہ دیر کے لیے گھر میں آجاتا تو مسکراتے ہوئے پپو سے کہتا ’’میں نے آج ایک اپوائنٹ منٹ کینسل کی ہے۔ تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ گیم آن کرو، اتنی دیر میں، میں آتا ہوں۔‘‘

رات کا کھانا بہترین تھا کیونکہ پپو کو نئے خریدے ہوئے کپڑے پہننے کا موقع مل گیا۔ اکثر اوقات سلطان پپو کو کھانے کے لیے بہت اچھے اچھے ہوٹلوں میں لے کر جاتا ہے۔ اُس دن کے بعد سے نہ کبھی سلطان کے کسی دوست نے فلم انڈسٹری کے بارے میں بات کی اور نہ ہی پپو نے کبھی یاددہانی کروائی کیونکہ سلطان کے ساتھ پپو بہت مزے کی زندگی گزار رہا ہے۔
پپو کو سلطان کا ساتھ اچھا لگنے لگا۔ جہاں تک جنسی تعلق کی بات ہے تو اس بارے میں پپو نے کبھی اپنے ذہن پر زیادہ زور نہیں ڈالا۔ سارا دن گھر میں اکیلا رہنے کے بعد پپو دوپہر اور رات کے کھانے کا بہت بے چینی سے انتظار کرتا۔ وہ دوپہر اور رات کو دفتر کے دروازے کے ساتھ اس قدر بے چینی سے انتظار کرتا جیسے کوئی کتے کا بچہ دروازے کے پاس اپنے مالک کا انتظار کرتا ہے۔

بدھ کی راتوں کو جب سلطان کھانے کے لیے گھر نہیں آ سکتا تھا تو وہ پپو کو پانچ سو روپے بھیج دیا کرتا تاکہ وہ ٹیکسی منگوا کر کھانا کھانے جا سکے۔ اُن راتوں میں پپو صرف پیزا پر اکتفا کرتا تاکہ کچھ پیسے بچا سکے۔
ایک رات جب پپو کھانے پر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا تو سلطان اُس کے پیچھے سے آیا اور اُس کے گلے میں ایک سونے کی چین ڈال دی۔ کھانے کے بعد سلطان پپو کو پچھلی طرف سوئمنگ پول کی طرف لے آتا ہے۔

سلطان ہنستے ہوئے پپو کی طرف ایک خوبصورت سا پیکٹ اچھالتا ہے اور پپو سے تیار ہونے کو کہتا ہے۔
پپو وہ کپڑے پہن کر سوئمنگ پول کے چاروں طرف ایک ماڈل کی طرح چکر لگاتا ہے اور سلطان کا دل لُبھاتا ہے۔

اگلا دن بدھ وار ہے، سلطان پپو کو پانچ سو روپے دیتا ہے اور خود سکاؤٹ میٹنگ پر چلا جاتا ہے۔ سلطان کے جانے کے بعد پپو اپنا سونے کا نیکلس پہنتا ہے اور ساتھ ہی اپنے مہنگے ترین کپڑے اور نئے سنیکرز اور فورٹ روڈ کی طرف نکلتا ہے تاکہ جان سکے کہ اس وقت وہاں پہ کون کون ہے، فورٹ روڈ پر رہنے والے نوجوان یا تو تنہائی کا شکار ہوتے ہیں یا خودنمائی میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

پپو کو فورٹ روڈ پر کوئی پرانا جاننے والا نہیں ملتا اور اس بات پہ وہ اُداس ہو جاتا ہے۔ پھر وہ میکڈونلڈز کی طرف جاتا ہے اورجہاں اتفاقاً اُس کی ملاقات بینا سے ہو جاتی ہے جو آج لڑکوں کی طرح کپڑے پہنے ہوئے ہے اور وہ پپو کو دیکھ کر خوش ہوکر اپنی میز کی طرف بلاتا ہے۔ پپو بینا کا حال احوال دریافت کرتا ہے۔ بینا بتاتا ہے کہ وہ کھانے کا انتظار کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ ’’آج کاروبار مندا ہے۔‘‘

پپو بینا کو کھانے کی پیشکش کرتا ہے جو بینا خوشی خوشی قبول کرلیتا ہے اور پپو سے اُس کے بارے میں پوچھتا ہے۔
پپو بینا کو اپنی ساری رام کہانی سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ اب اس سب کام سے تنگ آ گیا ہے۔ بینا، پپو کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔
بینا، پپو کے ساتھ اُس رات کو یاد کرکے خوش ہوتا ہے جب پپو اور بینا نے ساری رات اکٹھے گزاری تھی اور پپو کو معلوم نہیں تھا کہ بینا لڑکی نہیں، لڑکا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو مذاق کرتے ہوئے اپنا دل ہلکا کر لیتے ہیں۔ پپو مسکراتا ہے۔

بینا کا اصل نام جمی ہے۔جب انسان کی اپنے کسی ہم عمر کے ساتھ دوستی ہوتی ہے تو بہت اچھا لگتا ہے ، کیونکہ ایسے میں انسان اپنے دل کی ہر بات کر لیتا ہے،ایسی بات بھی جو وہ اپنے گھر والوں سے نہیں کر سکتا۔ پپو کو بینا کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے۔ وہ اُسے اپنے ساتھ چلنے کو کہتا ہے تاکہ وہ دونوں مل کر اُس کے کپڑے دھو سکیں، اُس کے علاوہ پپو اُسے اپنے کپڑوں کی بھی

پیشکش کرتا ہے۔ پپو اُ سے تیراکی کے بارے میں بھی دریافت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ رات کو سوئمنگ پول کے کنارے کتنا دلفریب منظر ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بینا کو یہ بھی باور کرواتا ہے کہ سلطان کے آنے سے پہلے اُسے جانا ہوگا۔

بینا، پپو کی اس پیشکش کو بہت خوشی سے قبول کرلیتا ہے۔ بینا اتنا بڑاگھر اور لونگ روم دیکھ کرحیران ہوتا ہے۔ وہ گیم بھی کھیلنا چاہتا ہے مگر پپو اُسے بتاتا ہے کہ گیم خراب ہے۔ جمی سوئمنگ پول کی طرف چلا جاتا ہے۔
اسی اثناء میں گیراج کا دروازہ کھلتا ہے اور پپو کو سلطان کا چہرہ نظر آتا ہے۔ پپو اس ڈر سے گھر کے اندر بھاگ جاتا ہے کہ سلطان جمی کو دیکھ کے ناراض ہوگا مگر اُس کے برعکس سلطان پپو کو دیکھ کے کہتا ہے ’’تمہیں خوش دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے‘‘۔
’’میں سمجھا تھا تم بور ہو رہے ہو گے، اس لیے میں تمہارے لیے ایک ایکشن مووی لے آیا‘‘ اس اثناء میں وہ دروازے کے پار جمی کو سوئمنگ پول سے باہر نکلتے ہوئے دیکھتا ہے اور کچھ سوچتے ہوئے پپو کو کہتا ہے۔

’’تم اپنے اس دوست کو کیوں نہیں روک لیتے کہ ہمارے ساتھ مووی دیکھے‘‘ ساری مووی کے دوران سلطان دھڑا دھڑ شراب کے گلاس بناکر پیتا رہا۔
مووی ختم ہونے پر سلطان اپنے بستر پر گر کر خراٹے بھرنے لگتا ہے۔ پپو لونگ روم کے فرش پر گِر جاتا ہے اور جمی صوفے پرہی مدہوش ہو جاتا ہے۔

پپو تنہا رہتا ہے اور شراب کا نشہ کرتا ہے، یہ طرز زندگی جاری رکھتا ہے۔ لنک-29 پر جائیے۔
پپو جمی اکٹھے رہتے ہیں۔ لنک-30 پر جائیے۔