لنک-23
لنک-23
اِدھر ڈوبے اُدھر نِکلے
آ عندلیب مِل کے کریں آہ و زاریاں۔۔۔۔۔۔تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دِل
پپو کی ملاقات جھاجھو سے ہوتی ہے جو اونچا لمبااور مضبوط جسم کا مالک ہے۔پپو اپنے مسائل اُس سے شیئر کرتا ہے ۔
’’ہمیں ایک کلب بنا لینا چاہئیے‘‘ جھاجھو پپو کے مسائل سننے کے بعد مشورہ دیتا ہے۔
ساتھ ہی وہ اپنی قمیض کے بٹن کھول دیتا ہے تاکہ آنے والے لوگوں کو اُس کا کشادہ سینہ نظر آ سکے۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ پپو حیرانگی سے پوچھتا ہے ۔
جھاجھو جوش میں آجاتا ہے اور پپو کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب بھی وہ جوش میں آتا ہے تو اُس کی نظر اپنے سامنے ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتی ہے، پھر وہ تیز تیز دائرہ کی صورت میں چلتے ہوئے اور زور زور سے ہاتھ ہلاتے ہوئے بات کرتا ہے۔
’’یہ کلب ایک طرح کا مدد کرنے کا ادارہ ہوگا، ہم نوجوانوں کو خبردار کیا کریں گے کہ کون لوگ خطرناک ہیں اورجن کی گاڑیوں میں نہیں بیٹھنا اور کون لوگ ہیں جو خطرناک نہیں ہیں، اُن کے ساتھ جایا جا سکتا ہے۔ اور پھر ہم ایڈز کے بارے میں بھی معلومات دے سکتے ہیں‘‘۔وہ پپو کو سمجھاتے ہوئے کہتا ہے۔
’’حقیقت کی دنیا میں واپس آجاؤ، جب تک روپوں اور منشیات کا لالچ ہے یہ لڑکے کبھی بھی باز نہیں آئیں گے اور کوئی احتیاط نہیں کریں گے۔‘‘پپو بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
’’لیکن میں نے تو نام بھی سوچ لیا ہے اپنے کلب کا‘‘ جھاجھو اپنی بات پر قائم رہتا ہے۔’’خوردہ فروش‘‘جھاجھو مثال دیتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’کیا مطلب؟‘‘ پپو حیرانی سے پوچھتا ہے۔
’’بھئی ہم کچھ اِدھر بیچیں گے اورکچھ اُدھر بیچیں گے‘‘۔جھاجھو تفصیلاً بتاتا ہے۔
’’اچھا۔۔۔ اُلٹی سیدھی مت ہانکو‘‘ یہ کہتے ہوئے پپو نے شراب کا خالی کین جھاجھو کی طرف اُچھالا۔ جھاجھو کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ وہ اس دھندے میں سالہا سال سے ہے اور اب تو پپو بھی اس کام میں پوری طرح ملوث ہو چکا ہے، اُن کی دوستی کی اصلی وجہ بھی یہی ہے۔ بھی ہوگئی۔ شروع میں جب دونوں ملے تو انہوں نے دوستی کے چند اصول بنائے اور پھر اُن اصولوں کی خلاف ورزی کی، پھر نئے اصول بنائے اور پھر نئے سرے سے خلاف ورزی کی اور آخرکار اصول بنانے چھوڑ دئیے لیکن دوستی نہیں چھوڑی۔ ان دونوں نے حالات کا بھی اچھی طرح تجزیہ کرنا سیکھ لیا۔۔
پپو اور جھاجھو سڑک کے کنارے پڑے ہوئے بنچ پر بیٹھے ہیں۔ پپو کی نظریں سڑک پر آنے والی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کے سمندر میں گم ہیں۔ ان ہیڈ لائٹس کا اثر بہت سحرانگیز ہے۔ دونوں اس وقت گاہک کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ پپو کا نشہ آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر کوئی گاڑی آکر جھاجھو کو لے جائے تو کم از کم کچھ دیر کیلئے وہ کہیں اور مصروف ہو جائے گا اور اگر کوئی شخص پپو کو لینے آئے تو اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ان لوگوں کا کمرے کاکرایہ نکل آئے گا اور پھر پپو کو نرم نرم بستر پر سونے کاموقع مل سکے گا کیونکہ پچھلے دو ہفتوں سے پپو اور جھاجھو کمرے کا کرایہ مل کے ادا کرتے تھے۔
جھاجھو پپو سے زیادہ پیسے کماتا ہے مگر سارے کے سارے نشے میں اُڑا دیتا ہے۔ جھاجھو کے گاہکوں میں بڑے بڑے ڈاکٹر، وکیل اور امیر زادے شامل ہیں۔ جھاجھو کے پاس بہت زیادہ قسموں کے کارڈز ہیں جنہیں وہ ’’بزنس کارڈز‘‘ کہتا ہے اور اس جگہ کو وہ اپنا آفس کہتا ہے۔ جھاجھو کے سب گاہکوں کو معلوم ہے کہ رات کے اس پہر جھاجھو اسی جگہ پر ملتا ہے۔
’’میری کالز کا دھیان رکھنا‘‘جھاجھو اپنا سیل فون پپو کی طرف اچھالتے ہوئے کہتا ہے اور خود اپنا پسندیدہ شیک پینے کیلئے چلا جاتا ہے۔
پپو کو ہمیشہ اس بات پہ اعتراض ہوتا ہے کہ جھاجھو یہ شیک کیوں پیتا ہے، بھلا اُسے کیا ضرورت۔۔۔! مگر جھاجھو ہمیشہ اُسے یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ سب کاموں کے ساتھ اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ تھوڑی دیر میں جھاجھو واپس آجاتا ہے۔ ابھی وہ پپو سے کچھ کہنے ہی لگتا ہے کہ ایک پیلے رنگ کی گاڑی پپو کے پاس آکر رُکتی ہے۔ پپو کے متوجہ ہونے سے پہلے ہی جھاجھو ڈرائیور تک پہنچ جاتا ہے اور اسی اثناء میں گاڑی جھاجھو کو بٹھا کے غائب ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی پپو کو جھاجھو کی اِن حرکتوں پہ بہت غصہ آتا ہے مگر پھر وہ یہ سب کچھ برداشت کرلیتا ہے کیونکہ جب اُس نے خودکشی کی کوشش کی تو جھاجھو نے اُس کی جان بچائی ، اس لیے جھاجھو کا پاس رہنا اسے تحفظ کا احساس دیتا تھا، اُس کی باتیں پپو کو اچھی لگتی ہیں۔ پپو خیالات میں کھویا، جھاجھو کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اُسے وقت گزرنے اور اردگرد ہونے والی تبدیلیوں کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔
آس پاس کی دکانیں بند ہو چکی ہیں۔ فورٹ روڈ کے فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ جسم فروش، گاہک اور ان کی گاڑیاں بھی اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف بڑھ رہی ہیں اور ابھی تک جھاجھو واپس نہیں آیا۔ پپو آدھے گھنٹے کیلئے اپنے ایک گاہک کے ساتھ جاتا ہے اور واپس آکر دیکھتا ہے تو جھاجھو اب بھی نظر نہیں آتا۔ اب اُس بنچ پہ صرف پپو بیٹھا ہے اور سوچ رہا ہے کہ اگر جھاجھو واپس آجائے تو دونوں بھی ایک کمرہ کرائے پر لے کر آرام کرلیں۔
ڈیڑھ گھنٹہ مزید گزر جاتا ہے، پپو کو جھاجھو کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ تھوڑی دیر میں وہی گاڑی دوبارہ آکر پپو کے پاس رُکتی ہے جو جھاجھو کو لے کر گئی تھی، پپو شکر کرتا ہے کہ جھاجھو واپس آ گیا ہے مگریہ کیا گاڑی تو خالی ہے، شیشہ نیچے ہوتا ہے اور پپو حیران ہے کہ ڈرائیور بھی کوئی اور شخص ہے۔
’’میرا دوست کہاں ہے؟‘‘ پپو پوچھتا ہے۔
’’تمہارا دوست جھاجھو ایک پارٹی میں ہے، مزے لوٹ رہا ہے۔ اُس نے میری منت کی کہ تمہیں بھی لے آؤں، وہ تمہارا انتظار کر رہا ہے‘‘۔ڈرائیور پپو کو بتاتا ہے۔
’’میرے پاس تمہاری کار کا نمبر ہے۔ اگر بیس منٹ میں میرا دوست واپس نہ آیا تو تم بھی نہیں بچو گے‘‘۔پپو اُس کو دھمکاتا ہے ۔
پپو اُس کار کا نمبر یاد رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر نشے کی وجہ سے ایسا نہیں کرپاتا۔ اب وہ فورٹ روڈ کی طرف دوڑتا ہے تاکہ جھاجھو کا پتا کرسکے۔ وہاں اُسے دو لڑکے نظر آتے ہیں ایک ذرا دراز قد کا ہے اور ایک پست قد۔ پپو بھاگ کر اُن دونوں کے پاس جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک لال رنگ کی مزدا دو گھنٹے پہلے جھاجھو کو لے کر گئی ہے اور وہ اب تک واپس نہیں آیا۔
’’کیا تم نے جھاجھو کو دیکھا ہے؟‘‘وہ اُن دونوں سے پوچھتا ہے ۔
دراز قامت نوجوان پپو کو بتاتا ہے کہ جھاجھو کو پولیس اُٹھا کر لے گئی ہے۔ ایک دفعہ پہلے بھی اُس کے ساتھ ایسے ہی ہوا تھا۔
’’کتنے عرصے کیلئے؟‘‘پپو پوچھتا ہے ۔
’’شاید تین مہینے یا اِس سے بھی زیادہ۔۔۔‘‘ایک نوجوان جواب دیتا ہے۔
’’میں بہت تھک چکا ہوں اب مجھے پارک میں جاکر سونا چاہئیے۔‘‘پپو سر پکڑ کر کہتا ہے ۔
’’بیوقوفی مت کرو‘‘دوسرا نوجوان کہتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی وہ نوجوان اپنے بٹوے سے ایک پیکٹ جس میں نمک کی طرح کا پاؤڈر ہوتا ہے باہر نکالتا ہے۔
’’کرسٹل۔۔۔!!‘‘ پپو کہتا ہے۔
’’میں نے یہ کبھی استعمال نہیں کیا اگر میں استعمال کرلوں تو شاید مجھے جاگنے کا تھوڑا اور موقع مل جائے اور ہو سکتا ہے پھر شاید اُسے پیسے بنانے کا بھی موقع مل جائے۔‘‘پپو پیکٹ دیکھ کر کہتا ہے۔
پپو کا خیال ہے کہ اُن لڑکوں کے ساتھ ٹائم گزارنے پر شاید انہیں بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔
اس لیے وہ تھوڑا سا پاؤڈر لے کر بلڈنگ کی آڑ لے لیتا ہے تاکہ سونگھ سکے۔ ویسے بھی اس وقت وہ اکیلا نہیں رہنا چاہتا۔پھر کیا ہوا؟ لنک-33 پرجائیے۔
پپو اُن دونوں کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کہتا ہے ’’میں پارک میں آرام کرلوں گا، ویسے بھی کچھ دیر میں روشنی ہو جائے گی، تھوڑا سا آرام کر کے میں بہتر محسوس کروں گا۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ منٹوپارک کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
آگے پڑھئے لنک-34 ۔