لنک-25

وہ ستمگر میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

نوئے گل،نالہ دردِ چراغِ محفل۔۔۔۔۔ جو تیری بزم سے نکلا، سو پریشان نکلا

’’ میں وقت پر آیا کروں گا اور دیگر حالات بھی خود ہی ٹھیک کرلوں گا‘‘ پپو صادق پہلوان کویقین دلاتا ہے۔
صادق پہلوان اس کی باتوں پر یقین نہیں کرتا اور وہ غصے میں کچن سے باہر جانے کیلئے مڑجاتا ہے۔

ریسٹورانٹ میں اوباش نوجوانوں کی ایک ٹولی کھانا کھانے آتی ہے۔ صادق پہلوان اُن سے باتیں کرتے ہوئے پپو کو آواز دیتا ہے تاکہ وہ کھانے کا آرڈر لے سکے۔ کھانے کے بعد صادق پہلوان پپو کو ایک ہزارروپے کا بل دیتا ہے تاکہ وہ ان گاہکوں سے بل کی ادائیگی کرواسکے۔ اس کے بعد وہ ایک اور گاہک کی طرف مڑتا ہے جو اُس کو 430 روپے کا بل دیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد صادق پپو کوجلدی سے تین عدد صاف پلیٹس لانے کو کہتا ہے۔ پپو پلیٹیں لانے کیلئے بھاگم بھاگ باورچی خانے کی طرف جاتا ہے اور بل کی رقم صادق پہلوان کو دینا بھول جاتا ہے۔ فوری بعد پپو سوچتا ہے کہ اگر یہ پیسے وہ اپنے پاس رکھ لے تو صادق پہلوان کو پتا نہیں چلے گا اور میں اسے اپنی ’ٹِپ‘ تصور کروں گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ ہوٹل پر لوگوں کے رش کی وجہ سے صادق کی نظر پپو کی اس حرکت پر نہیں پڑی۔ جب تمام گاہک چلے جاتے ہیں تو صادق پپو کو بلاتا ہے اور اُسے اس کی دیہاڑی دیتا ہے۔ پپو دیہاڑی لے کر کہتا ہے ، ’’پہلوان جی ! کل ملیں گے‘‘۔

’’تم سے ایک بات کرنی ہے‘‘ صادق پپو کو مسکراتے ہوئے واپس بلاتا ہے۔
’’اُسے پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے‘‘ پپو جواباً کہتا ہے۔
’’ایک منٹ سے زیادہ نہیں لوں گا‘‘ صادق یقین دلاتاہے اور اسے بیٹھنے کو کہتا ہے۔
’’تم وہ پیسے اپنے پاس رکھ سکتے ہو‘‘ صادق پہلوان پراسرار لہجے میں کہتا ہے۔
’’کونسے پیسے؟‘‘ پپو کی پیشانی پسینے سے شرابور ہو جاتی ہے۔
’’میں جھوٹ پسند نہیں کرتا‘‘ ’’صادق نرم لہجے میں سمجھاتا ہے۔ آج رات میں نے تمہیں ایک موقع دیا تھا جس میں تم اپنی فطرت کا اظہار مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے کر سکتے تھے۔ یہ محض 430 روپے کی بات ہے، تمہارا کیا خیال ہے یہ بال میں نے دھوپ میں سفید کئے ہیں، میں بہت پرانا کاروباری بندہ ہوں اور اگر میں چاہوں تو تم کو پولیس کے حوالے کردوں لیکن میں صرف تم کو سمجھانا چاہتا ہوں‘‘۔

’’مجھے صرف اس بات سے محبت ہے کہ جب انسان کو کوئی بڑا موقع ملے تو وہ ضرور اُن سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور اپنی صلاحیتوں کو منوائے۔ یہ تمام موقعے جو ہمیں زندگی میں ملتے ہیں اُن کے ذریعے ہم اپنی پہچان کروا سکتے ہیں۔ کبھی کبھار ہم غلط راستے پر بھٹک جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا جبکہ لوگ خاموشی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم انہیں تماشانہ دکھائیںیا نا!۔ مثال کے طور پر اگر میں لوگوں کی عزت نہ کروں، اُن سے پیسے بٹورلوں اور انہیں اچھا کھانا نہ دوں، انہیں الم غلم کھلا دوں تو ضروری نہیں کہ وہ بولیں، ضروری نہیں کہ وہ لعنت ملامت کریں، ہوسکتا ہے کہ لوگ کچھ کہنے کی بجائے پھرکبھی واپس میرے ہوٹل میں نہ آئیں اور اس سے میں گم سم اور پریشان ہی ہوں گا۔‘‘ صادق پپو کو سمجھانے کیلئے پورے درد دل سے بات کرتارہا۔

’’اک ذرا سی بات سے پتا چل جاتا ہے کہ کوئی کس قسم کا انسان ہے؟ اِس قسم کا انسان ہے یا اُس قسم کا انسان ہے۔ اب مجھے تمہارے بارے اس راز کا پتا چل گیا ہے اور یہ جاننے کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ 430 روپے کی قیمت بھی کم ہے یہ تم ہی رکھ لو، بس اب تم اپنی راہ لو اوریہاں واپس آنے کی ہرگزتکلیف نہ کرنا

پپو نے کسی قسم کی وضاحت کرنے کی کوشش نہ کی کیونکہ وہ خود بھی واپس نہیں آنا چاہتا تھا۔ لہٰذا وہ خاموشی کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔ اس نے صادق کی نصیحتوں کو سُنی ان سُنی کر دیا، وہ اب سخت دل کا مالک بن چکا تھا۔ اُس کی ظاہری حالت اور شخصیت بالکل بدل چکی تھی۔ وہ ایک چکنا گھڑا بن چکا تھا۔

پپو سوچتا ہے کہ شبو کس حالت میں ہوگی؟ وہ ہیومن رائٹس کے دفتر شبو سے ملنے جاتا ہے، ملاقات کے دوران شبو اُسے ایک علیحدہ کمرے میں لے جاتی ہے۔ پپو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا اور شبو کو بانہوں میں لے لیتا ہے۔
’’میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں، مجھ سے دُور رہو‘‘ شبو کے لہجے میں سردمہری ہوتی ہے۔
پپو یہ بات سن کرحیران رہ جاتا ہے۔ بچہ پیدا کرنے کے حوالے سے اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہ خبر سن کر وہ سُن ہوجاتا ہے، تاہم شبو کی سردمہری سے اُس کو دُکھ پہنچتا ہے۔

’’تمہیں کیسے معلوم ہے کہ یہ بچہ میرا ہے‘‘ پپوڈھٹائی سے پوچھتا ہے۔
’’کیا تم مجھے کوئی فاحشہ عورت سمجھتے ہو؟‘‘ شبو افسردہ لہجے میں سوال کرتی ہے۔’’میں تمہیں کئی دنوں سے تلاش کر رہی تھی لیکن کوئی رابطہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں؟ ‘‘ شبو بات کو آگے بڑھاتی ہے۔
’’میری بات غور سے سنو! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ بچہ کس کا ہے، اب حالات کا سامنا بھی کرو‘‘ شبو غصے سے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر جاتے ہوئے کہتی ہے۔

پپو باتھ روم میں چلا جاتا ہے اور کئی دنوں کی میل اپنے جسم سے اُتارتا ہے۔نہاتے نہاتے پپو سوچتا ہے کہ کیا میں باپ بننے والا ہوں؟ پپو تصور میں ایک اچھا مستقبل دیکھتا ہے جس میں اس کے ابو، امی، بے بی، اپارٹمنٹ، نوکری اور محبت شامل ہوتی ہے۔ پھر پپو کو اپنے بچپن کے دن یاد آتے ہیں جب وہ سکول جایا کرتا تھا اور اپنے استاد کو ہاتھ اٹھا کر سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟اور وہ گھر سے نکل کر یہاں تک کیوں پہنچا؟ اب اُس کی منزل مقصود کیا ہوگی؟ وہ پریشانی کے عالم میں کھو سا جاتا ہے۔اسے سب کچھ ایک ڈراؤنا خواب لگتا ہے۔

پپو اسی پریشانی کے عالم میں ہیومن رائٹس کے دفتر سے نکل کر اپنے کمرے میں آجاتا ہے اوراندھا دھند نشہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔مسلسل نشہ اس کا دماغ ماؤف کر دیتا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کے قابل نہیں رہتا اور اپنے ہوش سے بے گانہ ہو کر ایک طرف لڑھک جاتا ہے۔

شبو کی اس حالت کے پیش نظر ہیومن رائٹس کا انچارج اس کو کسی دوسرے ادارے میں منتقل کر دیتا ہے۔ شبو پپو کیلئے یہ پیغام چھوڑتی ہے کہ اگر وہ اس کے بارے کوئی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہیومن رائٹس کے دفتر سے رجوع کرسکتا ہے۔

کچھ دنوں بعد پپو شبو کے بارے میں ہیومن رائٹس کے ایک نمائندے سے پوچھتا ہے۔ وہ جھوٹ بولتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پپو اُسے دھمکی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ زیادہ چالاک بننے کی کوشش مت کرو اور مجھے صاف صاف بتاؤ کہ شبو کہاں ہے؟

پپو اونچی آواز میں استقبالیہ پر موجود لڑکے کو بلاتا ہے اور اس سے شبو کے بارے میں پوچھتا ہے۔ استقبالیہ پر موجود لڑکا بتاتا ہے کہ وہ شبو کے بارے اسے کوئی معلومات نہیں دے سکتا کیونکہ یہ ادارے کی پالیسی کے خلاف ہے۔ پپو اس کے اس ناروا رویے پر شدید غصے میں آجاتاہے اور دفتر میں کافی غل غپاڑہ اور تھوڑ پھوڑ کرتاہے۔وہ لڑکا پپو کو سمجھاتا ہے کہ ’’تم جتنا مرضی چیخو چلاؤ، ہم تمہیں شبو کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے، ہماری مجبوری سمجھو‘‘۔ پھر وہ پپو کے دونوں کندھے مضبوطی سے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے، اور ہاں! میری بات غور سے سنو!

جب تمہارا بچہ اس دنیا میں آئے گا تو وہ بھی ہم سے اپنے والد کے بارے میں پوچھے گا کہ اُس کا باپ کون ہے؟ وہ کیا کرتا ہے؟ اس کا کاروبار کیا ہے؟ اس کی زندگی کا سٹائل کیا ہے؟ کیا ہم اسے کوئی معقول جواب دے سکیں گے؟ کیا ہم یقین سے کہہ سکیں گے کہ اس کا باپ کون ہے؟

ہماری زبان چپ رہنے کی عادی ہے، کئی دفعہ یہ بولنے سے انکار کردیتی ہے ہماری کچھ مجبوریاں ہیں۔ کیا ہم اسے بتا سکتے ہیں کہ تم نشہ کرنے کیلئے لوگوں سے پیسے چھینتے ہو؟ کھانا کھانے کیلئے داتا دربار کے چکر لگا تے ہو؟ تم کسی کے ساتھ بھی سو سکتے ہو! تم ایک جسم فروش نوجوان ہو جسے پاکیزگی اور غلاظت کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا؟ کیا ہم اسے بتا سکتے ہیں؟ ضرروی نہیں کہ تم ہی اس کے باپ ہو؟ ہوسکتا ہے کہ وہ محض ایک حرامی ہو! ان گلیوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح پلنے والے بہت سے دوسرے حرامی لوتھڑوں کی طرح ایک اور! پپو نڈھال ہوکر زمین پر گرپڑا اور آنکھیں بند کرلیں۔

تمہیں چاہیے کہ خدا سے معافی مانگو اور اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرو کہ تم آئندہ کیا کرنا چاہتے ہو؟ استقبالیہ پر موجود لڑکا پپو کو سمجھاتا ہے۔

پپو شرمندہ ہوتا ہے اور اُس سے معذرت کرتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ وہ نشہ میں دھت تھا اس لیے اس سے یہ غلطی ہوگئی۔ لنک-35 پر جائیے۔

پپو ہنگامہ آرائی جاری رکھتا ہے۔ لنک-36 پر جائیے۔