لنک-38
لنک-38
بھاگ پپو بھاگ
جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے
پوتنی دا پپو کو پلکیں جھپکائے بغیر غصیلی نظروں سے دیکھتا ہے۔ پپو اس کی غصیلی نظروں کی تاب نہیں لا پاتا اور اپنی نظریں پھیر لیتا ہے اور پھر جب دوبارہ تھوڑی دیر بعد پوتنی دا کی طرف دیکھتا ہے تو اُس کی آنکھیں اُسی پر جمی ہوتی ہیں۔
’’کیا کتے لڑنے سے پہلے اسی طرح ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھتے؟‘‘ پپو سوال کرتا ہے۔
’’پوتنی دا! تم یہاں نہیں ٹھہر سکتے!‘‘ پپو صاف اور سیدھی بات کرتا ہے۔
پوتنی دا مٹھی بنا کر پپو کو اشارے کنائے میں گالی دیتا ہے۔
’’میں پولیس کو بلاؤں گا‘‘ پپو ڈرے ڈرے انداز میں کہتا ہے۔
پوتنی دا پاجامہ نیچے کرتا ہے اور پھر سے گندا اشارہ کرتا ہے۔
آخر پپو ہار مان لیتا ہے اور پوتنی دا کو صادق کے بھائی اچھو پہلوان سے ملوانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ تھوڑا دور چلنے کے بعد دونوں اچھو پہلوان کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ پپو دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔
’’ایک منٹ!‘‘ اندر سے دھیمی سی زنانہ آواز آتی ہے۔
’’میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا‘‘ پپو پوتنی دا کو بتاتا ہے۔
’’اچھا! ادھر آؤ‘‘ پوتنی دا مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ پپو کو بلاتا ہے۔
’’کیا یہ لوگ تمہیں مہمان ٹھہرانے کی اجازت بھی نہ دیں گے ؟‘‘ پوتنی دا پپو سے سوال کرتا ہے۔
’’پتا نہیں، ویسے یہ لوگ ہمارے ساتھ خاص مہربانی کر رہے ہیں‘‘ پپو گو مگو کی کیفیت میں جواب دیتا ہے۔
دروازہ کھلتا ہے، اچھو پہلوان کی بیوی مسکراہٹ لیے ظاہر ہوتی ہے لیکن جب وہ پوتنی دا کا بگڑا ہوا حلیہ دیکھتی ہے تو اُس کی مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے۔
’’کیا میں ایک منٹ کیلئے آپ کا فون استعمال کر سکتا ہوں، میرا بیلینس ختم ہے؟‘‘ پپو کے لہجے میں عاجزی ہوتی ہے۔’’ایک سیکنڈ ٹھہرئیے‘‘ اچھو پہلوان کی بیوی کہتی ہے۔
پھر وہ دروازہ مزید کھولتی ہے۔ پپو اندر چلا جاتا ہے لیکن پوتنی دا باہر ہی رہتا ہے اور پپو خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ پپو سوچتا ہے کہ کیا میں پولیس کو بلاؤں یا پوتنی دا کو اچھو پہلوان سے دھمکی لگواؤں۔ پھر کال ملاتا ہے۔
’’صادق پہلوان جی میری بات سنو، مجھے جمعہ کے دن چھٹی چاہیے، جنید کو کہو کہ وہ جمعہ کے دن
میری جگہ کام کر لے، اتوار کے دن میں اُس کی جگہ کام کر لوں گا۔ اچھا جمعہ کو۔۔۔ ٹھیک ہے‘‘، ’’سوری پہلوان جی آپ کو تکلیف دی اسکی معذرت چاہتا ہوں‘‘ پپو فون بند کر دیتا ہے اور باہر نکل آتا ہے۔
’’یہاں پولیس آنے والی ہے‘‘ پپو پو تنی دا سے جھوٹ بول کر ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔
’’میں نے تو کوئی قانون شکنی نہیں کی، میں تو اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں‘‘ پوتنی دا مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔
’’تم نے مجھ سے جو کچھ لیا ہے وہ واپس کرو‘‘ پوتنی دا پپو سے تقاضا کرتا ہے۔
وہ پپو کو پھانسنا چاہتا ہے لیکن پپو اپنی جیب میں سے پیکٹ نکال کر اس کی طرف پھینک دیتا ہے۔ پو تنی دا شش و پنج کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ پیکٹ اپنے اندر والی جیب میں ڈالتا ہے اور اکڑتا ہوا گلی سے بازار کی طرف چل پڑتا ہے۔
پپو تھوڑی دیر رُک کر اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہتا ہے تاکہ پو تنی دا کو یہ پتا نہ چلے کہ وہ کونسے کمرے میں رہتا ہے؟ تھوری دیر بعد وہ اپنے کمرے میں جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیتا ہے اور صوفہ پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک گھنٹے کے بعد شبو آتی ہے اور پپو کوصحیح حالت میں دیکھ کر حیران ہوتی ہے۔ جب پپو اُسے بتاتا ہے کہ وہ نشہ کرنے والا ہے تو وہ ناراض ہوتی ہے۔ پپو شبو کو منانے کیلئے کہتا ہے کہ وہ آئندہ نشہ نہیں کرے گا۔ شبو اس پر بہت خوش ہوتی ہے اور پپو کو بانہوں میں لے لیتی ہے۔ وہ اُسے یقین دلاتی ہے کہ وہ دونوں کوئی متبادل تفریح ڈھونڈ لیں گے۔ پھر وہ اپنا سر پپو کی چھاتی پر رکھتے ہوئے کہتی ہے، ’’ آج کل جوش گروپ الحمرا اوپن ایئر تھیٹر میں اپنا جادو جگا رہا ہے ، تم چلو گے وہاں میرے ساتھ؟‘‘
’’میرے خیال میں ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم وہاں جا سکیں‘‘ پپو مایوسی سے جواب دیتا ہے۔
’’اگر تم نشہ آور چیزوں پر پیسے نہ ضائع کرو تو تم زیادہ رقم بچا سکتے ہو‘‘ شبو بیزاری کا مظاہرہ کرتی ہے۔پپو اُسے بتاتا ہے کہ وہ اب مزید چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں نہیں رہ سکتا۔ شبو اُس کو کہنی مارتی ہے اور اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ انہیں پتا ہوتا ہے کہ وہ کنسرٹ پر نہیں جا سکتے اس لیے وہ دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی کر تے ہیں۔ پھر تھک ہار کردونوں ایک دوسرے میں گم ہو جاتے ہیں۔
اگلے روز جب پپو، صادق ریسٹورنٹ میں کھانے کے برتن دھو رہا ہوتا ہے تو شبو غصہ کی حالت میں
کچن میں داخل ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ پو تنی دا ریسٹورنٹ میں آیا ہے اور پیزا کا آرڈر دے رہا ہے، کیا تم نے اسے یہاں کا پتہ دیا ہے؟ہو سکتا ہے کہ اُس نے صبح میرا تعاقب کیا ہو، وہ مجھے پریشان کرنا چاہتا ہے، آج پپو کی تنخواہ کا دن ہے اور پپو سوچ رہا تھا کہ وہ دوپہر کو شبو کیلئے کوئی اچھی چیز خریدے گا لیکن پوتنی دا اس کی ساری خوشیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔
’’تمہیں اپنی آمدنی پر ٹیکس دینا ہو گا اچھے شہری خوشی سے ٹیکس دیتے ہیں‘‘ پو تنی دا کی آواز آتی ہے۔پپو پیچھے مڑتا ہے تو کیا دیکھتا ہے، بِلاّ قصائی، پو تنی دا اور تین نئے چہرے دائرہ بنائے شدیدغصے میں کھڑے تھے۔ پپو کو یقین نہیں آ رہا تھا، وہ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں ان کا منہ دیکھ رہا تھا۔ پپو نے سوچا کہ اگر اس نے مزاحمت کی تو اُس کا سواگت مکوں، ٹانگوں، زنجیروں اور چھانٹوں سے ہو گا اور وہ زیادہ دیر تک یہ سب کچھ سہہ نہیں سکے گا۔
’’ خبر دار ! اگر تم نے ہاتھ بھی لگایا تو میں 15 پر کال کر کے پولیس کو بلا لوں گا‘‘ پپو خوف سے کانپتے ہوئے دھمکی دیتا ہے۔
بِلاّ قصائی بائیسکل کی زنجیر ہوا میں لہراتا ہے، جو اُس نے کمر کے پیچھے چھپائی ہوتی ہے اور پھر پپو کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ حسب توفیق اس کے ساتھی بھی پپو پر پل پڑتے ہیں، کافی ٹھکائی کرنے کے بعد جب پپو ادھ موا ہو جاتا ہے تو وہ اسے اُٹھا کر ہوٹل سے دور کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ جاتے جاتے پو تنی دا پپو کو ٹھڈا مار کر دھمکی دیتا ہے،’’ اگر ہمیں پولیس والوں نے تنگ کیا تو پھر یہاں تمہاری لاش ہو گی۔ کبھی لاش دیکھی ہے تم نے؟‘‘
پپو سر تا پا خون میں لت پت گھسٹتا ہوا سڑک تک آتا ہے اور ایک آدمی سے موبائل فون لے کر شبو کو فون کرتا ہے۔ پپو کا تمام جسم سوجھا ہوا ہوتا ہے اسے اپنی پسلی کی ہڈیاں بھی ٹوٹی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اتنی دیر میں صادق اور شبو آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے ہسپتال اور پھر پولیس اسٹیشن جائیں گے۔
’’پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت نہیں ہے بعد میں وہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے‘‘ پپو خوف سے کانپتے ہوئے صلاح دیتا ہے‘‘،وہ میرے بارے سب کچھ جانتے ہیں کہ میں کہاں رہتا ہوں؟ کیا کام کرتا ہوں؟ تنخواہ کب ملتی ہے؟ انہیں سب معلوم ہے اور انہیں ہر وقت پیسوں کی ضرورت رہتی ہے۔ جب کہ مجھے اُن کے بارے میں قطعاً کچھ نہیں معلوم حتیٰ کہ یہاں تک میں اُن کے حقیقی نام بھی نہیں جانتا اور میں اُن کو آسانی سے ڈھونڈ بھی نہیں سکتا جبکہ وہ مجھے کہیں نہ
کہیں سے ضرور ڈھونڈ نکالیں گے‘‘۔
میو ہسپتال ایمرجنسی میں پپو بار بار حالات کی وضاحت کرتا ہے جس پر صادق اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتا ہے کہ تم صحیح کہہ رہے ہو لیکن تم اس طرح اُن سے پیچھا نہ چھڑا پاؤ گے۔
پپو کی ہڈیوں کا ایکسرے اور چہرے پر ٹانکے لگنے تک صادق کے ذہن میں ایک منصوبہ بن چکا تھا۔ صادق پہلوان پپو کو بتاتا ہے کہ تم گلبرگ میں موجود میرے دوست کے بندو خان ریسٹورنٹ پر کام کرو، میں تمہیں وہاں لبرٹی مارکیٹ کے عقب میں ایک کرائے کا کمرہ لے دوں گا اور اس کا کرایہ ایڈوانس دے دوں گا بعد میں یہ ادھار تم اپنی تنخواہ میں سے مجھے دیتے رہنا۔ اس سے تمہارا ہاتھ کچھ تنگ ہو جائے گا لیکن اسی میں تمہارا فائدہ ہے۔ میں اپنے لوگوں کا خیال رکھتا ہوں لیکن تمہیں مجھے یقین دلانا ہو گا کہ تم آئندہ بُرے کاموں میں نہیں پڑو گے۔
’’تم میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کر رہے ہو؟‘‘ پپو کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
’’تم یہ خیال نہ کرنا کہ میں بہت اچھا انسان ہوں، میں خیرات کا شوقین نہیں ہوں، مجھے حاتم طائی بننے کا کوئی شوق نہیں۔ میں چاہوں گا کہ جتنی جلدی تم اپنا بوجھ اُٹھانا سیکھ لو اتنا ہی اچھا ہے‘‘ صادق پہلوان جواب دیتا ہے۔
’’جب میں اپنے کاریگروں کو کام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو وہ مجھے قیمتی اثاثہ نظر آتے ہیں اور میں ان کا سچا ہمدرد بن جاتا ہوں اور انہیں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں اور یہ کوئی زیادہ مشکل نہیں۔۔۔۔اور ہاں دُنیا میں تو کوئی بھی چیز مشکل نہیں ہے۔‘‘ صادق پہلوان پپو کو سمجھاتا ہے۔ پپو سوچوں میں گم ہو جاتا ہے۔
’’کیا میں نے کسی موقع پر شبو سے محبت کا اظہار کیا تھا؟ کیا میں نے کبھی کوئی فیصلہ بھی کیا تھا؟ یا یہ سب کچھ خود بخود ہو گیا۔ کیا میں اب اس ذمہ داری کو نبھا سکتا ہوں؟ یہاں پر زندگی کسی اور نوعیت کی ہے‘‘ پپو اپنے آپ سے سوال کرتے ہوئے کہتا ہے۔
’’کیا تم میرے ساتھ متفق نہیں ہو؟‘‘ صادق پپو کو خیالوں سے نکالتے ہوئے پوچھتا ہے۔
’’ نہیں، نہیں، ایسی کوئی بات نہیں‘‘ پپو یقین دلاتے ہوئے کہتا ہے،’’بلکہ میں تو شدت سے آپ کی طرح بن جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے‘‘ صادق مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔’’اب تم گھر جاؤ، شبو تمہارا بے چینی سے انتظار کر رہی ہے۔‘‘ صادق پہلوان معنی خیز انداز میں کہتا ہے۔
’’کیوں؟ مجھے بتائیے، ایسا کیا ہے؟‘‘ پپو استفسار کرتا ہے۔
’جانی! میں تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا‘‘ صادق پپو کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے انکار کرتا ہے۔ پپو اپنی اور شبو کی زندگی سنوارنے کے بارے میں پختہ ارادہ کرتا ہے۔
لنک-47 پر جائیے۔