لنک-41

بھاگ پپو بھاگ

جب بھاگنے کا شوق من میں انگرائیاں لیتا ہے

گاڑی میں بیٹھ کر وہ ریسٹورنٹ پہنچتے ہیں۔ پپو پر خاموشی طاری ہوتی ہے۔ پپو مسلسل پانچ گھنٹے تک سگریٹوں کے دھوئیں، شراب نوشی اور موسیقی کے ماحول سے اُکتا جاتا ہے۔ وہ وہاں سے نکل کر کسی خوشگوار جگہ پر جا کر لمبا اور پُرسکون سانس لینا چاہتا ہے۔ باہر نکلنے پر اسے دو جانے پہچانے چہرے نظر آتے ہیں۔ وہ ان سے علیک سلیک اور عمومی گفتگو کرتا ہے پھر ڈی مونٹ کے دفتر کے نزدیک چھوٹی سی دیوار پر واپس آ کر بیٹھ جاتا ہے اور سوچتا ہے‘‘ ، ’’اوہ۔۔۔! میری کتنی یادیں اس جگہ سے وابستہ ہیں‘‘۔

اس رات ریسٹورنٹ مندے کا شکار ہے۔ پانچ خوبصورت نوجوان کراچی سے چوری کی وین میں لوٹ مار کرنے لاہور آئے ہوئے ہیں۔ پانچوں اپنی وضع قطع سے خوشحال گھرانوں کے چشم و چراغ نظر آتے ہیں اور سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان نئے مہمانوں کی آمد پر سب خوش ہیں اور ان کے اردگرد منڈلا رہے ہیں۔ پپو تنہائی محسوس کرنے لگتا ہے لیکن ایک کونے میں خالی گلاس کے ساتھ میز کرسی پر جما رہتا ہے۔
پپو آرام کرنے کیلئے ایک مطمئن بلی کی طرح چھوٹی دیوار پر سکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ نوجوان اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگتے ہیں اپنی زبان میں وہ اسے ’’کِٹ لگانا‘‘ کہتے ہیں۔ نوجوان اسے ’’چڑیا‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں لیکن وہ کوئی رد عمل نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پانچ کے مقابلے میں اکیلا ہے، بلکہ وہ اس قدر شکستہ دل اور ہمت سے عاری ہے کہ اگر کوئی نوجوان جو کہ لنگڑا لولا بھی ہوتا تو وہ بھی اسی طرح بے دلی سے پڑا رہتا۔ ایک طرح سے اُس نے بے بسی سیکھ لی تھی۔

’’نئی زندگی‘‘ سے دو کونسلرز لوگوں کو کنڈوم کے فوائد سمجھا رہے تھے اور کنڈوم فری مہیا کر رہے تھے لیکن کوئی بھی ان سے گفتگو پر آمادہ نہ تھا۔ وہ دونوں بہت دل جمعی سے لوگوں سے بات چیت کر رہے تھے لیکن کوئی بھی اُن کی سننے والا نہیں ہے۔

’’کیا ’’ایچ آئی وی‘‘ اور ایڈز دو مختلف بیماریاں ہیں؟‘‘ پپو پوچھتا ہے۔

’’ایچ آئی وی‘‘ ایک وائرس کا نام ہے۔ جو لوگ غیر محفوظ جنسی ملاپ کرتے ہیں یہ وائرس اکثر اُن میں پایا جاتا ہے اور وہ اسے دوسروں میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی میں وائرس منتقل ہو جائے تو اسے ایچ آئی وی پازیٹو کہا جاتا ہے۔ ایچ آئی وی پازیٹو لوگ کئی سالوں تک بیمار نہیں ہوتے لیکن انسان کے مدافعاتی نظام میں خلل پڑ جاتا ہے۔ وہ اپنے جسمانی نظام کی حفاظت اس طرح نہیں کر پاتے جیسے کہ دوسرے لوگ باآسانی کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُن کے جسم پر سوزش ہو سکتی ہے جس کے بعد دانے نکل آتے ہیں تاہم ایک تندرست آدمی میں ان جراثیم کو رد کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔‘‘ وہ تفصیلاً جواب دیتا ہے۔

’’تو پھر ایڈز کیا شے ہے؟‘‘ پپو مزید پوچھتا ہے۔
ایڈز کسی خاص بیماری کا نام نہیں ہے جبکہ یہ اُسی کیفیت کا نام ہے جس میں ایچ آئی وی پازیٹو والے شخص کو مختلف بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب کوئی شخص اس طرح بیمار ہوتا ہے تو اس کی جسمانی حالت کو ایڈز کا نام دیتے ہیں۔ اس حالت زار سے پہلے اس شخص کو ایچ آئی وی پازیٹو ہی کہیں گے۔‘‘
’’لوگ وائرس کا شکار کس طرح ہوتے ہیں؟‘‘ پپو ایک اور سوال داغ دیتا ہے۔

’’اندھا دھند غیر محفوظ جنسی سرگرمیوں کے علاوہ جب خون کا انتقال ایک بیمار جسم سے دوسرے جسم میں ہوتا ہے تو اُس شخص کا خون بھی وائرس زدہ ہو جاتا ہے۔ زخم کے ذریعے بھی وائرس منتقل ہو سکتا ہے لہٰذا ہمیں چھوٹے چھوٹے زخموں سے محتاط رہنا چاہئیے جو لاشعوری طور پر ہمارے جسم یا ہاتھوں پر انجانے میں لگ جاتے ہیں۔‘‘

’’لیکن یہ کس طرح پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخص جراثیم زدہ ہے تاکہ اُس سے محتاط رہا جا سکے؟‘‘

’’یہ جاننے کیلئے کوئی بھی طریقہ نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ایچ آئی وی پازیٹو ہے اور بیمار نہیں ہے تو وہ تمہاری یا میری مانند نظر آئے گا۔ میں پازیٹو ہو سکتا ہوں لیکن جب تک میں تمہیں بتاؤں گا نہیں تو تم کبھی بھی جان نہ پاؤ گے۔ بہتر ہے آپ ہر شخص کو ایچ آئی وی پازیٹو ہی سمجھیں اور اُن سے محتاط رہیں۔ محفوظ ترین طریقہ ایسے لوگوں سے جنسی ملاپ نہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی تعلقات کے درجے ہیں جس سے خدشات بڑھتے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بے راہ رو جنسی تعلقات سب کے سب تکلیف دہ ہوتے ہیں۔‘‘ وہ پپو کی نظروں میں نظریں ملا کر کہتا ہے۔

’’اگر میں جنسی ملاپ نہیں کروں گا تو بھوکا مر جاؤں گا‘‘ پپو جواباً کہتا ہے ۔
’’میں تمہاری بات سمجھتا ہوں، میں تمہیں مفت میں ’کنڈوم‘ دے رہا ہوں، ایک پیکٹ لے لو۔‘‘ وہ ہمدردی کا اظہارکرتے ہوئے کہتا ہے۔

وہ پپو کو ایک پلاسٹک کا چھوٹا بیگ دیتا ہے جس میں چند ’کنڈومز‘ ایک کریم اور ہدایات پر مبنی ایک کاغذ موجود ہوتا ہے۔ وہ کچھ تصویری خاکوں کی طرف اشارے بھی کرتا ہے۔

’’جب لوگوں کو ’کنڈوم‘ کا طریقۂ استعمال سکھایا جاتا ہے۔ تو لوگ توجہ نہیں دیتے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ’ کنڈوم‘ کا استعمال صحیح طریقہ سے کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس طرح اُن کے جانے بغیر ہی یہ وائرس ان میں منتقل ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے اور دوسروں کیلئے چلتے پھرتے ٹائم بم کی طرح ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ ایڈز کی بیماری سے زیادہ دور نہیں ہوتے۔
’’ اوہ !‘‘پپو حیرانگی سے کہتا ہے۔

پپو کوایڈز کے حوالے سے مفت ٹیسٹ کروانے کیلئے ہدایات دیتا ہے۔ وہ اس کی تندرست صحت کیلئے دعا گو ہوتا ہے اور اپنے ساتھی کے ساتھ فورٹ روڈ سے روانہ ہو جاتا ہے۔
پپو کو معلومات مفید لگتی ہیں لیکن بظاہر ’کنڈوم‘ کو غباروں سے تشبیہہ دے کر مذاق کرتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اس کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ غیر محفوظ جنسی تعلقات قائم کر لے یا بھوکا رہے اور پارک میں جا کر زمین پر سو جائے۔ کوئی بھی نوجوان ہر وقت محفوظ جنسی تعلق قائم نہیں رکھ سکتا۔
اگلے دن جب وہ اپنا ٹیسٹ کرواتا ہے تو رزلٹ ’’ایچ آئی وی پازیٹو ‘‘نکلتا ہے۔
پپو سوچتا ہے،’’ وہ ایڈز اورایچ آئی وی پازیٹو کے بارے میں معلومات حاصل کر لینے کے بعد اپنے گاہکوں کو زیادہ سے زیادہ بیماری میں مبتلا کر سکتا ہے‘‘ رنج کی کیفیت میں اس کی سوچ آگے بڑھتی ہے، ’’اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے کم از کم ہزار سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائے گا‘‘۔
پپو کے مزاج میں واضح تبدیلی آتی ہے۔ اس کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ تیرتی ہوئی صاف نظر آتی ہے۔ گزرتے ہوئے نوجوان پپو سے اُس کی مسکراہٹ کے بارے میں سوال کرتے ہیں لیکن وہ کوئی جواب نہیں دیتا۔ وہ اپنی ظاہری حالت کو بہت بہتر کر لیتا ہے تاکہ لوگوں کیلئے پرکشش نظر آئے۔ وہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ اس کے پاس ہر وقت کچھ نہ کچھ روپے ضرور ہونے چاہئیں۔

پپو ایچ آئی وی پازیٹو ہونے سے پہلے اتنا پر جوش کبھی نہیں تھا اور نہ ہی اس میں اتنی قوت ارادی تھی۔ بدلے کا جذبہ اندھا، بہرہ اور دیوانہ ہوتا ہے۔ انسانوں کی تباہی کیلئے یہ جذبہ ایٹم بم سے زیادہ تباہی پھیلا چکا ہے۔
لنک-47 پر جائیے۔