کیا آپ نشے سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟

Can You Get Rid of Addiction

1980ء میں کولمبیا میں، میں ہیروئن اور کوکین استعمال کرتی تھی اور کبھی کبھار تو دن میں کئی بار استعمال کر لیتی جس کے نشانات ابھی بھی میرے جسم پر واضح ہیں۔ میں نے سکول سے نکالے جانے، اوور ڈوز ہو جانے، حتیٰ کہ نشہ کے کاروبار کے جرم میں گرفتار ہو جانے کے باوجود اس کا استعمال جاری رکھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ مجھے باقی کی ساری زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑ سکتی ہے۔ میرے والدین نہایت پریشان تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان کی ہنر مند بچی کو کیا ہوا ہے جو کہ ہمیشہ سے ہی پڑھائی میں اوّل آتی تھی۔ اس کے باوجود کہ میں کئی بار ناکامی کا شکار ہو چکی تھی پھر بھی وہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ میں کسی طرح نشہ چھوڑ دوں۔

مائیا سزالوٹز ایک امریکی جرنلسٹ ہیں جن کو نشے کی بیماری، سائنس ۔ صحت اور پبلک پالیسز کے موضوعات پر عبور حاصل ہے۔ وہ کتابunbroken Brain:A Revolutionary new way of understand Addiction کی مصنف ہیں۔ اس کے علاوہ مزید کتابیں The boy who was raised as a dog کی مصنف نگاری مشترکہ طور پر ڈاکٹر بروس اور پیری کے ساتھ سرانجام دی جن کا مقصد بچپن میں ہونے والے حادثاتی واقعات پر روشنی ڈالنا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے نیو یارک تائمز، سائیکالوجی ٹو ڈے، ٹائم ڈاٹ کام، وائس اینڈ سانٹفک آمریکن مائینڈ، میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

ایڈیٹر: اقرا طارق

نشے کی بیماری سے متعلق عام طور پر دو نظریات کو اپنائے جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ منشیات کے استعمال سے دماغ میں موجود کیمیکلز میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ایک دائمی اور بڑھنے والی بیماری بے قابو ہو جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ نشہ کرنے والے افراد نہایت خود غرض ہوتے ہیں جنہیں دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور زیادہ تر لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں جب کوئی اپنا اس کا شکار ہوتا ہے تو لوگ پہلے نظریے کا انتخاب کرتے ہیں جب کہ کوئی دوسرا شخص اس میں مبتلا ہو تو اسے ایک برا شخص سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اب کسی نئے نظریے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی ایک جدید تحقیقات کی طرف قبولیت میں کمی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بہت سے موجودہ علاج کے نتائج بہتر نہیں آ رہے ہیں۔

ڈرگ ایڈکشن کے دوران دماغی کارکردگی کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نشے کی بیماری ایک ذہنی مسئلہ ہے لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جو بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بگڑنے لگے جیسے الزائمر یا کینسر اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد مجرمانہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک لرننگ ڈس آرڈر ہے یعنی ایک ایسی بیماری جس میں سیکھنے کے عمل میں دشواری ہوتی ہے اور یہ دشواری دماغ کی وائرنگ میں خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں رویوں میں بھی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ بہت سے لرننگ ڈس آرڈرز میں نشئی رویے زندگی میں آگے بڑھتے ہوئے موروثی اور ماحولیاتی عناصر پر انحصار کرتے ہیں۔ صدیوں سے سائنس دانوں نے نشے کی بیماری اور سیکھنے کے عمل سے متعلق تحریریں پیش کی ہیں۔ اب انسانوں اور جانوروں پر کی جانے والی تحقیقات سے دماغ کے ان مخصوص حصوں کا پتا لگایا جا رہا ہے جو کہ اس بیماری میں شامل ہوتے ہیں۔

تحقیقات سے واضح ہوا ہے کہ منشیات کے استعمال سے دماغ کے درمیانی حصے کے کام میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ مخصوص طور پر وینٹرل ٹیگمینٹم (Ventral tegmentum)نیوکلیس آکمبس (Nucleus accembus) اور پری فرنٹل کورٹیکس (Pre-frontal cortexکو مہیا کرتے ہیں جس کے نتائج میں حوصلہ افزائی اور مزہ لینے کے سسٹم کا توازن بگڑ جانا شامل ہے اس کے علاوہ فیصلہ کرنے، وجہ تلاش کرنے، مسائل حل کرنے اور ترجیحات مقرر کرنے کی صلاحیتوں حتیٰ کہ زندہ رہنے کی ترجیحات یعنی کھانا اور پینا بھی بُری طرح سے متاثر ہوتا ہے۔ علت اُس وقت پروان چڑھتی ہے جب دماغ کے یہ حصے کسی غلط شے پر متوجہ ہوتے ہیں جیسے کہ کوئی نشہ آور کیمیکل یا پھر کو ئی اور علت جیسے جواء کھیلنا، جنسی رویّے یا زیادہ کھانا کھا لینا۔

اگر میری طرح کسی کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہو تی جہاں آپ کو اکیلا پن، جذباتی تناؤ کی زیادتی اور پیار کی کمی کے احساس نے گھیرا ہو تو ایسے میں منشیات کا سہارا لینا ایک آسان حل نظر آتا ہے جیسا کہ میرے لیے ہیروئن کا استعمال ایک سکون، تحفظ اور پیار کا ذریعہ تھا جو کہ مجھے لوگوں سے نہیں ملتا تھا۔ ایک بار جب مجھے اس تجربے کا احساس ہوا تو میرے لیے اس کے بغیر زندہ رہ پانا ناممکن تھا۔ ہمارے دماغ میں ایک ایسا کیمیکل پایا جاتا ہے جو منشیات اور دیگر تجربات سے پیدا ہونے والے مزے کا احساس جگاتا ہے جسے ڈوپامین کہتے ہیں۔ اس نظریے سے کسی بھی علت کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے کہ پہلے یہ ایک ایسے لرننگ ڈس آرڈر کی طرح ہے جیسے اٹینشن ڈیفیسنٹ ہائیپرایٹو ڈس آرڈر (ADHD) یا ڈسلیکسیا۔ جس میں مکمل طور پر ذہانت خراب نہیں ہوتی۔ پھر دوسرا اہم نکتہ ی ہے کہ نشے کی بیماری میں الجھے شخص کے اختیارات مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتے یعنی مکمل طور پر ارادہ رکھنے کی صلاحیت غائب نہیں ہو سکتی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے پولیس کے سامنے بیٹھ کر کوئی نشے کا استعمال بالکل نہیں کرتا تاکہ اسے سلاخوں کے پیچھے نہ جانا پڑے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نشے کے حامل انسان اپنی صحت کو بہتر بنانے کے طریقے سیکھ سکتے ہیں۔
تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بہت سارے ایسے پروگرام آ چکے ہیں جن سے نشے سے بحالی متوقع ہے۔ سیکھنے کا عمل یہ واضح کرتا ہے کہ کیوں شراب اور منشیات کی طلب اتنی طاقتور ہوتی ہے اور کیوں اس کے باوجود لوگ نشے کے متحمل رہتے ہیں جبکہ اس کے نقصانات مزے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتے ہیں اور کیوں وہ غیر منطقی حرکات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بے شک کوئی یہ یقین رکھتا ہو کہ کوئی سا بھی نشہ اس کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے اگرچہ دوسروں کی نظر میں اس کی اہمیت نہیں۔ تلخ حقائق کے مقابلے میں پیار محبت جیسی خواہشات سیکھنے کا عمل نسبتاً مختلف ہے۔ جیسا کہ جذبات کے سیکھنے کا عمل ایک بالکل مختلف عمل ہے اُن طریقوں سے جو ہم حساب کتاب کو یاد کرنے میں کرتے ہیں۔ جیسے کہ آپ کو اپنے ہائی سکول کے حساب کو یاد کرنا مشکل ہو گا اور اپنے ہائی سکول کے پہلے پیار کو یاد کرنا نسبتاً آسان۔

مسلسل سیکھنے کے موضوع پر ڈاکٹر صداقت علی کا خصوصی پروگرام دیکھیئے۔

نشے کی بیماری کی شناخت اگر ایک لرننگ ڈس آرڈر کی طرح کی جائے تو اس بحث کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے کہ آیا کہ ایک بڑھنے والی بیماری ہے جیسا کہ ماہرین کی رائے ہے یا محض یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے جیسا کہ عام طور پر مانا جاتا ہے جبکہ حقیت میں یہ صرف ایک نقصان دہ طریقہ ہے جو روزمرہ کے مسائل سے نبٹنے کے لیے سیکھ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر یہ بیماری دماغ کے ان حصوں پر اثر کرتی ہے جو پیار کے احساس سے منسلک ہیں تو پھر نشے سے بحالی، اپنے کسی پیارے سے علیحدگی کے یکساں ہے جس کا اثر تا عمر ہو سکتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنا مشکل ہوتا ہے اور اکثر نشے کی طرف واپسی ایک جنونی رویہ بن جاتا ہے۔ لیکن یہ کسی دماغی خرابی کی نشانی نہیں۔

ایسے میں علاج لاگو کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر نشے کی لت کسی گمراہ پیار کی مانند ہے تو سزا کی بجائے ہمدردی ایک بہتر طریقہ ہے۔ 2007 ء میں کی جانے والی ایک میٹا اینالیسس جس میں پچھلی چار صدیوں کی درجنوں تحقیقات سے پتا یہ چلا کہ ہمدردی سے منسلک علاج روایتی نشے کی علاج گاہ کے علاج سے بہتر ہے۔ ان علاجوں میں کاگنیٹو بیہیوریل تھراپی (CBT) اور موٹی ویشنل انحانسمنٹ تھراپی شامل ہیں۔ مریض کو یہ بتانے کی بجائے کہ وہ اپنی علت کے سامنے بے بس ہیں اُن کی مدد کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملات کے ذریعے تبدیل ہونے کا ارادہ کر سکیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس بیماری میں دماغ نشے کی تلاش میں مصروف رہتا ہے حالانکہ عام طور پر یہ دوسروں سے معاشرتی رابطہ قائم کرتا ہے۔ تو دماغ کو صحت مند بنانے کے لیے زیادہ پیار کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ مزید درد کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک سخت اور سزا پر یقین رکھنے والے علاج کی کامیابی کے کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ یہ وہ علاج ہیں جن میں قید اور ذلت سے سہارا لیا جاتا ہے اور روایتی “انٹروینشن” جس میں تمام گھر والے بھی مریض کو عاق کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اس بیماری کے حامل لوگ تو پہلے ہی اپنے بیمار ذہن کی بدولت منفی تجربات سے گزر رہے ہوتے ہیں تو لہٰذا سزا سے تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ نشے کی بیماری کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور تقریباً تیس سال کی عمر تک لوگ اس پر قابو پانا سیکھ لیتے ہیں اور ان کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ کس طرح سے انہوں نے کسی بھی علاج کے بغیر شراب نوشی یا منشیات پر قابو پانا ہے۔ 23 سال کی عمر میں میں نے نشہ ترک کر دیا تھا کیونکہ مجھے اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ نشہ اب مجھے نقصان پہنچا رہا ہے۔

رویوں کو کیسے تبدیل کریں؟ ڈاکٹر صداقت علی کی ویڈیو دیکھیئے۔

ایسا اس لیے بھی ممکن ہوا کہ میں جسمانی طور پر بھی اس قابل ہو چکی تھی کہ میں ایسا کر سکوں۔ نوجوانی کے دوران وہ توانائی جو ہمیں اس کے لیے ابھارتی ہے کافی طاقتور ہو چکی ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے تقریباً بیس سال کے بعد ہی ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانی میں نشے کی بیماری ہو جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے پختگی آنے پر مجھے علم ہوا اور اس سے میری کافی مدد بھی ہوئی۔ اس وقت تمام علاج گاہوں میں جو علاج فراہم کیا جاتا تھا اس پر بارہ قدموں پر مشتمل پروگرام ہی کروایا جاتا تھا جو کہ صرف کچھ افراد کے لئے ہی فائدہ مند ثابت ہوا۔ حتٰی کہ آج بھی بہت ساری علاج گاہوں میں جو علاج کیا جاتا ہے اسی طرح اس بالا تر ہستی کے سامنے اپنی مرضی کو جھکانا ، دعا کرنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا جیسے مراحل پر مشتمل ہے۔ ہم کسی بھی اور بیماری کے علاج میں اتنی زیادہ اخلاقیات کو لے کر نہیں آتے جتنا کہ ہم اس بیماری میں اہمیت دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنے ماضی کے رویوں پر معافی مانگنی ہے جبکہ ایسا شیزوفرینیا یا ڈپریشن سے بحالی کے علاج میں نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ جب ہم یہ جان لیں گے کہ نشے کی بیماری کوئی گناہ نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی عمل ہے تو ہم اس طرح سے وہ تمام منطقوں کو رد کر سکتے ہیں جوکہ کام نہیں آتیں اور بحالی پر زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔

اگرچہ نشے کی بیماری کو برقرار رکھنے والی جنونیت صحت مند کاموں کی طرف لگائی جا سکتی ہے جس سے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود مریض کو بار بار کا رد کرنا نشے کی طرف لے جاتا ہے بلکہ بطور مصنف یہ میرے لیے بھی ناگزیر رہا اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی قابلیت ایک خزانے کی مانند ہے۔ لوگوں کو بس یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح انہوں نے اس قابلیت کو نشے کی بحالی کی طرف اور ایک مثبت راہ میں تبدیل کرنا ہے۔