صبح سویرے جب سورج کی سنہری کرنیں باغیچے میں کھلنے والے پھولوں پر پڑنا شروع ہوئیں تو دن امید افزاء محسوس ہونے لگا۔ بالآخر وہ دن آ ہی گیا اور مسز یوسف نے سوچا، “میں کسی سے مشورے کیلئے آمادہ ہوں”۔ خاموشی کو توڑنے کیلئے طاقت ملتے ہی اس کے سر سے منوں بوجھ اتر گیا۔ دو بچوں کی پرورش اور حالات کے نارمل ہونے کا سوانگ بھرتے بھرتے وہ کئی سال سے کشمکش میں تھی۔ تاہم آج وہ خاوند کا دیرینہ راز افشاں کرنے والی تھی۔
ڈاکٹر صداقت علی، ٹرننگ پوائنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ملک کے ممتاز ماہرِ منشیات ہیں۔ پاکستان میں نشے کے علاج کے حوالے سے ان کا نام سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے ڈو میڈیکل کالج ، کراچی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ میں ہیزلڈن، مینی سوٹا سے نشے کے علاج میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اب تک ہزاروں نشے کے مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہو چکے ہیں۔
یوسف صاحب ایک بہت اچھی ملازمت پر تھے تاہم پیسہ کہاں خرچ ہوتا کوئی پتہ نہ چلتا تھا۔ گھر کے خرچے پورے ہوتے اور نہ ہی یوٹیلٹی بل ادا ہوتے تھے۔ اب وہ بڑے گھر میں رہنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تھے۔ دو سالہ گڑیا اور چار سالہ ننھا بھی ہر وقت یوسف کے زیر عتاب رہتے۔ کچھ راتیں وہ گھر سے باہر ہی بسر کرتا تھا جبکہ مسنر یوسف کی جانب سے رشتہ داروں اور دوستوں سے معاملات کو بہت اچھی طرح سے چھپایا جا رہا تھا، کم از کم مسز یوسف ایسا ہی گمان رکھتی تھی۔ اب تو لوگوں نے استفسار کرنا شروع کر دیا تھا کہ سب خیریت تو ہے ناں؟ وہ کسی نہ کسی بہانے ٹال دیتی تھی لیکن لوگوں کے چہروں پر موجود انوکھی تشویش وہ بھول نہ پاتی اور اندر سے ڈرتی رہتی کہ بھانڈا پھوٹنے ہی والا ہے۔ یوسف شراب اور کوکین کی لت میں مبتلا تھا۔ ان کا خاندان بننے سے پہلے ہی بکھر رہا تھا۔
مسز یوسف نے اچھی گھر داری اور بچوں کی بہترین پرورش کے خواب دیکھے تھے لیکن اب اس کی بے بسی اور مجبوری آخری حدوں کو چھو رہی تھی، وہ ہر لمحہ فکر مند رہتی تھی۔ چند دن کیلئے صورتحال کچھ سلجھتی مگر پھر یوسف کسی بہانے لڑائی کرتا اور تین چا ر دن کیلئے غائب ہو جاتا۔ اب وہ آفس بھی بہت دیر سے جانے لگا اور کبھی تو جاتا ہی نہیں تھا۔ وہ جاب کرنے کے بارے میں غور کرتی لیکن پھر بچوں کا سوچ کر رہ جاتی۔ کچن کے اخراجات اور یوٹیلٹی بلز کیلئے وہ اپنی ساس کے آگے ہاتھ پھیلاتی لیکن یوسف کا بھید نہ کھلنے دیتی۔ اس نے کسی کو بھی سچ بات نہ بتائی تھی لیکن آج یہ رویہ بدلنے والا تھا اور وہ یو ٹرن لینے ہی والی تھی۔
اچانک اس کے ذہن میں فاطمہ کی تصویر ابھری فاطمہ سروسز ہسپتال میں سینئر نرس تھی اور وہ کچھ عرصہ مسنر یوسف کی ہمسائیگی میں رہی تھی۔ وہ بہت تجربہ اور علم رکھتی تھی۔ مسز یوسف کو خیال آیا کہ اسے فاطمہ سے بات کرنی چاہیے، وہ اس مسئلے کا حل ضرور جانتی ہوں گی۔ اس نے گلبرگ میکڈونلڈ پر ملنے کا فیصلہ کیا تاکہ بچے اس دوران وہاں کھیلتے رہیں۔ جونہی وہ فاطمہ کے سامنے بیٹھی، کہانی آنسوؤں کی جھڑی بن کر مسز یوسف کی آنکھوں سے بہہ نکلی۔ ندامت، غم و غصے اور آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو تھمنے میں نہ آتا تھا۔
’’باجی! مجھے بہت افسو س ہے‘‘ تمہیں اس مشکل اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے۔ حالات تب ہی بدلیں گے جب یوسف کی طرف سے مدد کے لیے پکار آئے گی۔ تم اس کی بہترین مدد دور رہ کر ہی کر سکتی ہو۔ تمہیں حالات کو خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کو بحرانوں سے نکالنا چھوڑ دو۔ اسے مصیبت کی دلدل میں گہرا اترنے دو۔ اسے اس مصیبت کا مزہ چکھنے دو جو خود اس نے اپنے لئے پیدا کی ہے۔ اگر وہ گڑ بڑ کر تا رہے اور تم روزانہ یہ گند صاف کرتی رہو گی تو اسے نشہ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب تم اس سے لا تعلق ہو جاؤ گی تو اسے ہی ایڈکشن کے نتائج بھگتنا پڑیں گے”۔
جیسے جیسے فاطمہ باتیں کرتی جا رہی تھی، مسز یوسف کو محسوس ہو رہا تھا کہ زمین اس کے پاؤں تلے سے نکلی جا رہی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ اور سننے کی سکت نہ تھی۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ مایوس ہو چکی تھی۔
بچوں کو گاڑی میں بٹھاتے ہوئے ایک بار پھر آنسو اس کی آنکھوں سے امڈ پڑے۔ میں کب تک ایسی ہی زندگی گزارتی رہوں؟ اور کیسے؟ جب اس کو ملازمت سے نکال دیا جائے گا تو ہمیں مکان بھی چھوڑنا پڑے گا۔ گذر بسر کیلئے روپیہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ہمارا گزارا کیسے ہو گا؟ کیا میں کھڑی خاموش تماشائی بنی رہوں؟ ہمدردی اور ترس کے علاوہ اسے فاطمہ سے کچھ نہ ملا، وہ خالی ہاتھ لوٹ رہی تھی۔ گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف جاتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب وہ پارکنگ لاٹ سے نکل رہی تھی تو بچے بھی رو رہے تھے۔ ماں کو روتے دیکھ کر بچے اکثر ایسے رونے لگتے تھے جیسے وہ سب سمجھتے ہوں۔ تیز چلتی ٹریفک میں داخل ہوتے ہوئے سورج کی تیز روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
فاطمہ کی باتوں میں سچ تھا لیکن بس آدھا! بلانوشوں کو اپنی بیماری کے نتائج بھگتنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ آدھا سچ اور ادھوری کہانی ہے جو فاطمہ نے اسے سنائی۔ لاتعلقی سے مراد اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہے تو فاطمہ پر مسز یوسف کا کچھ قرض باقی ہے جو میں چکائے دیتا ہوں۔
مسز یوسف کو کچھ ایسے گُر جاننے کی ضرورت تھی جن کی مدد سے وہ اپنے خاوند میں مدد حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کر سکے۔ الٹا اسے یہ تجویز دی گئی کہ کچھ نہ کرو اور اپنی دنیا کو بکھرتے ہوئے دیکھتے رہو اور انتظار کرو حتٰی کہ وہ دن آئے جب وہ چاروں شانے چت گرے اور مدد کیلئے پکارے۔
جب ہمیں لگتا ہے کہ کچھ نہ کرنا ہمارے لیے بہتر ہے تو ہم نشے کی بیماری کو تمام اہل خانہ کی زندگی میں کھل کر کھیلنے کا موقع دیتے ہیں۔ جو بلانوش علاج سے دور رہتے ہیں وہ اردگرد کے لوگوں کی زندگی میں ہلچل مچائے رکھتے ہیں۔ وہ انہیں ہمیشہ کیلئے ایسی اذیت اور تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے بلانوش جنہیں نشہ جاری رکھنے کا اجازت نامہ مل جاتا ہے اپنے اہل خانہ کی زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں۔ علاج پر آمادہ ہونے کا انتظار بہت کٹھن ہے۔ نشے کے مریض سے لا تعلقی فہم و فراست سے بھر پور اور زور دار اصول ہے جس کا بہیمانہ اور بے دریغ استعمال بہت خطرناک ہو گا۔ اس پر کچھ زیادہ غو ر کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر لاتعلقی سے کیا مراد ہے؟ لاتعلقی کا عمومی مطلب ہر وقت مریض کی فکر کرنے اور پیچھے پڑے رہنے کی بجائے اپنی نگہداشت کرنا ہے، مر یض کو مجبور کرنے سے باز رہنا ہے۔ جو وہ نہیں کرنا چاہتا اس کیلئے کان مڑوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے اندر کنٹرول کرنے کی خواہش کو دبانا ہے۔ نشئی کی من مانی کے باوجود تحمل سے رہنا ہے، یعنی لاتعلقی کا مطلب تو اپنے ہی من میں ڈوب کر چراغ زندگی پا لینا ہے۔ اس کا نام رجسٹر سے کاٹ دینا ہر گز نہیں یہ لاتعلقی جذباتی سطح پر ہے لیکن ذمہ داری جاری رہے گی کیونکہ وہ آپ کا پیارا ہے۔