کسی بھی یونیورسٹی سے منشیات کا خاتمہ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے

How Can Drug Eradication Be Possible From Any University

ونائیٹڈ نیشنز کے مطابق اس وقت پاکستان میں 80 لاکھ لوگ ڈرگ ایڈکشن میں مبتلا ہیں اور ہر سال اس میں 40 ہزار لوگوں کا اضافہ ہوتا ہے. ہمارے پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولوں میں ایڈکشن کا رجھان بہت زیادہ ہوگیا ہے. اگر کبھی آپ کسی کیمپس میں جائیں تو آپ کو صاف صورتحال نظر آئے گی کہ بہت سے لوگ سگریٹ اور چرس کا استعمال کر رہے اور بہت سے سٹوڈنٹس ایسے ہیں جو اس وقت جب آپ نے انہیں دیکھا، تو نہیں کر رہے ہوں گے لیکن ان کے حالات اور ان کا طرز زندگی دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ بھی ڈرگز کے استعمال میں ہیں. تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ڈرگز ہماری یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہیں جیسے کہ یورپ امریکا اور کینیڈا کی یونیورسٹیز میں پھیلی ہوئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق جو سٹوڈنٹس کی تعداد یونیورسٹیز میں ہیں اسی عمر کے اسٹوڈنٹ جو یونیورسٹی سے باہر ہیں تو یونیورسٹی والے بچوں کا ڈرگز میں جانے کا امکان ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کو تعلیمی دباؤ کا سامنا زیادہ ہوتا ہے اور تعلیم کی روشنی کی وجہ سے ڈرگز تک انکی پہنچ بھی با آسانی ہوتی ہے. یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ان پر لوگ زیادہ نشے کی طرف جاتے ہیں. اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کا ماحول بھی خاصہ تکلیف دے بن گیا ہے گھروں میں بھی اکثر ڈانٹ ڈپٹ چلتی رہتی ہے. مائیں بھی بچوں کو اکثر بلاوجہ ہی ڈانٹ دیتی ہیں یعنی ہمارے طرز زندگی میں کافی فرق آگیا ہے اور اس میں مزا کِرکِرا کرنے والے عناصر زیادہ ہوگئے ہیں. دنیا میں جہاں جہاں اچیومنٹ اور پرفارمنس نظر آتی ہیں وہی آپ کو نشے کا رُجحان بھی نظر آئے گا آپ خود دیکھ لیں جو لوگ نامور وکیل، جنرلسٹ پائلٹس یا بیوروکریٹ ہوتے ہیں تو ان کے اندر الکوحل کا استعمال عام عوام کی نسبت زیادہ نظر آتا ہے۔

کیا معاشرتی دَباؤ بھی نشہ کی وجہ بن سکتا ہے؟

پڑھنے لکھنے والے بچوں میں نشے کی ایک بڑی وجہ دوستوں کا دَباؤ بھی ہے فرض کریں جِس یونیورسٹی میں نشہ ہے تو بڑی ظاہر سی بات ہے کہ اس کے ہوسٹل میں بھی ہوگا اور جو طالب علم نشہ نہیں کرتے ہوں گے ان پر دوسرے طالب علم جو کہ نشہ کرتے ہیں ان کا بہت زیادہ دَباؤ بھی ہوگا. اور کچھ ایسے طلباء جو کہ متاثر کن شخصیات کی پیروی کرتے ہیں اور اگر وہ شخصیات نشہ یا ایسے کیمیکلز کا استعمال کرتی ہیں تو وہ بھی اپنے مُتاثر کُن شخصیت کی طرح اس چیز کا اِستعمال کرنا چاہیں گے اور اِنہی کی طرح اپنا طَرز زِندگی گزارنا چاہیں گے۔

کیا تَکنیکی اِیجادات کے ساتھ ساتھ نَشے کی دُنیا نے بھی تَرقی کی ہے؟

آج کل کے نشے بھی پہلے کی نِسبت بہت زیادہ طاقتور ہیں آج کی چرس پہلے کی چرس سے سو گناہ زیادہ تیز ہے اس بار کچھ نئی قِسم کے نَشے بھی متعارف ہوئے ہیں جو کہ پہلے نہیں تھے جیسے کہ کوکین اور میتھ اور یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ بہت سارے نَشوں کے مِلے جُلے استعمال سے لوگ نشے کے ایفیکٹ کو چھپا بھی سکتے ہیں جیسے کہ اگر کوئی الکوحل استعمال کرتا ہے تو وہ اس کے اثر کو چھپانے کے لئے کوکین کا استعمال کرلے گا اور دیکھنے والے کو یہ غلط تاثر ملے گا کہ یہ سٹوڈنٹ نشے میں نہیں ہے. نشے کے مضر اثرات دوسرے نشوں سے چھپانا اور شام تک تھک کر ٹوٹ جانا اور جلد ہی سو جانا اور پھر رات کو جاگ جانا اور صبح پھر پانچ بجے سونا اور دماغ کے قدرتی کیمیکلز کا حشر بگاڑ دینا، یہ ان طلباء کی نشانی ہے جو کہ نشے کے مرض یعنی ایڈکشن میں مبتلا ہوتے ہیں۔

نشے کے فوائد

نشے کے بہت سارے نُقصانات کے ساتھ ساتھ اسکے چند ایک فوائد بھی ہیں جو کہ جُگاڑ کہلاتے ہیں اور زیادہ دیر تک کام نہیں کرتے. یہ وقتی سکون اور دیرپا مصیبت کا دوسرا نام ہیں. جیسے کہ عام طور پر طلبہ امتحان میں زیادہ دیر تک پڑھنے کے لئے راتوں کو جاگتے ہیں اور جب راتوں کو جاگنے میں ان کو دِقت محسوس ہوتی ہے تو وہ کچھ ایسے کیمیکلز کا استعمال کرتے ہیں جو وقتی طور پر ان کی نیند کو غائب کردیں کیونکہ ان کو جاگنا ہوتا ہے، اور جب پھر وہ سو کر اپنی تھکاوٹ دور کرنا چاہتے ہیں تو وہ کچھ ایسے کیمیکلز کا استعمال کرلیتے ہیں جو کہ ان کو سلا دیں اور وہ اپنے دماغ کے کیمیکلز کو اپنی ہی مرضی سے چلاتے جاتے ہیں جو کہ ایک بڑی تباہی کی طرف ان کو لے کر جا رہا ہے. کچھ طلباء اپنی ذہانت کو بڑھانے کے لیے چرس کا استعمال کرتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیتی ہے، شرم کو ختم کر دیتی ہے، کونفیڈنٹ بنا دیتی ہے، دماغ کو تیز کر دیتی لیکن در حقیقت یہ سب باتیں صرف اپنے آپ کو تسلی دینے والی ہیں. یہ ایک ایسا گھاٹے کا سودا ہے جس میں انسان اپنی صحت دے کر صرف تباہی خریدتا ہے۔

ایڈِکشن کی تعریف

ضروری نہیں ہے کہ ہر روز نشہ کرنے والا ہی نشے کی بیماری کا شکار ہو اور کبھی کبھی نشہ کرنے والا ‘نشئی’ نہ ہو ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے نشہ ایک موروثی بیماری ہے جو انسان کے اندر پائی جاتی ہے. یاد رکھیے نشہ ایک جسمانی، نفسیاتی، معاشرتی، اور روحانی بیماری ہے جو کہ انسان کی جینز میں پائی جاتی ہے جس شخص کی جینز میں نشے کی بیماری ہے پھر وہ چاہے سال میں ایک بار نشہ کرے تو نشہ کرنے کے بعد اس کو نقصان بہرحال اُٹھانا پڑیں گے. اور جسکی جینز میں ایکشن نہیں ہے تو وہ اتنا نقصان تو نہیں اٹھائے گا لیکن ایک پسماندہ زندگی گزارے گا۔

سوڈان کی اسٹڈی

سوڈان کی ایک لیٹسٹ سٹڈی کے مُطابق جو لوگ ہفتے میں صِرف ایک بار چرس کا استعمال کرتے ہیں تو پانچ سال کے اندر ان کا ذہانت کا معیار دس فیصد نیچے آجائے گا اور آہستہ آہستہ ان کے اندر پاگل پن پیدا ہو جانے کے چانسز بڑھ جائیں گے. اور اس کا اِمکان ان کے دوسرے فیملی ممبرز کی نسبت 70 فیصد ہوگا. لیکن اگر وہ ہفتے میں سات دن استعمال کریں اور زندگی میں چاہے صرف 50 بار ہی استعمال کریں تو ان کے اندر پاگل پن کی بیماری یعنی شِیزوفرینیا کے اِمکان 600 فیصد ہو جائیں گے جو ذہین طلباء جو کہ نشہ استعمال کرتے ہیں تو نشہ اِستعمال کرنے کے ساتھ ہی ان کے تعلیم میں گریڈز نیچے گِر جاتے ہیں اور اسی وقت آپ کو ان کا یورین ٹیسٹ کروا لینا چاہیے تاکہ اگر کوئی گڑبڑ ہے بھی تو اس کو شروع میں ہی پکڑ لیا جائے. جو بندہ بھی نشے کا ِاستعمال کرتا ہے تو اس نشے کے اَثرات اس بندے پر ساری زندگی نظر آتے ہیں نشہ کرنے والوں کے شخصیت ہیں بہت عجیب سی ہوتی ہیں اور وہ سب کو نظر آتی ہے کوئی نشہ کرنے والا انسان اپنے آپ کو مختلف سرگرمیوں میں شامل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو کہ اِنسان کو ہر چیز سے لاتعلق کروا کر صرف اپنے آپ سے ہی جوڑے رکھتی ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ڈرگز کی طرف رُجحان اور دھیان ہٹتا ہی نہیں بلکہ مزید بڑھتا چلا جا رہا ہے؟

ابھی تک دُنیا بھر میں جو کام کیا جاتا ہے نشے کی معلومات کے لئے تو وہ صرف کچھ نعرے ہیں جو کہ سے نوٹو ڈرگز کی طرح کی مہم ہے. لیکن صرف زبانی کلامی حد تک یہ کرنا کافی نہیں ہے، اس کے لیے ہمیں کوئی مضبوط بند لگانے پڑیں گے جوکہ ہمیں رزلٹ بھی دیں اور ہمارا حوصلہ مزید بلند ہو۔ ان چیزوں کو ختم کرنے کے لیے ایسے سلوگنز نہیں کام کرتے بلکہ کوئی وَائٹل بیحیوئیر کرنے پڑتے ہیں جوکہ مئیر کیے جاسکیں اور دیکھے بھی جاسکیں۔

تعلیمی اِداروں میں نشہ پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

اگر تمام کالجز میں سگریٹ پہ مکمل طور پر پابندی لگ جائے تو نشہ کرنے پر بھی کسی حد تک قابو پالیا جائے گا. بدقسمتی سے پاکستان میں صرف تین یُونیورسٹیز ہی ایسی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو سموک فری زون بنا رکھا ہے لیکن باقی یونیورسٹیز میں ابھی ایسا کام دور دور تک نظر نہیں آتا۔ نشے کی روک تھام کے لیے کوئی ریولوشنری پروگرام نہیں بلکہ ایولوشنری پروگرام ہونا چاہیے جس میں کہ آپ ان کے نصاب میں کچھ ایسی چیزیں شامل کریں تاکہ آنے والی زِندگی میں وہ اسٹریس کو مینیج کرنا بھی سِیکھیں اور اپنی مُشکلات سے بھاگنے کی بجائے ان سے روبرو ہونا سیکھیں۔

لائحہ عمل
جس کسی یونیورسٹیز میں مثال کے طور پر دَس ہزار سٹوڈنٹ ہیں تو اس میں سے روزانہ ایک فیصد طلباء کا یورین سیمپل لیا جائے گا یعنی دس ہزار میں سے روز دس طلبہ کا بیلٹ کے ذریعے یورین سمپل لیا جائے گا. مثال کے طور پر اگر روزانہ 10 طالبعلم کا بیلٹ کے ذریعے یورین سیمپل لیا جائے اور ان کو ٹیسٹ کرتے رہیں اور ان 10 میں سے ایک سٹوڈنٹ کا یورین پازیٹیو نِکل آتا ہے اور باقی نو نیگیٹیو نکلتے ہیں تو آپ ان کو دو کیٹگریز میں رکھنا شروع کر دیں. اب ایک مہینے کے بعد آپ کے پاس اِن ‘ڈرگ فری’ والی کیٹیگری میں 270 طالب علم ہوں گے جبکہ ‘ڈرگز’ والی کیٹیگری میں تیس طالب علم ہوں گے۔

اب اگلا قدم یہ ہوگا کہ ڈرگز والی کیٹیگری والے طلباء کا روزانہ ٹیسٹ ہوا کرے گا اور جب تک ٹیسٹ کلئیر نہیں ہوجاتا ان کا تعلیمی پروگرام آگے نہیں بڑھے گا، اور اِس میں اِن کی فیمیلز کو بھی رجوع کیا جائے گا. اور یوں ایک سال میں تین ہزار طلباء کا ٹیسٹ کر لِیا جائے گا اور اسی طرح تین سال میں ساڑھے دس ہزار طلباء کی ٹیسٹنگ ہوچکی ہوگی. یورن ٹیسٹنگ ہونا یونیورسٹیز میں ایک وائیٹل بیہوئیر ہونا چاہیے اور یہ بہت سے لوگوں کو اِس چیز سے محتاط رکھے گا کہ نشہ سے پرہیز کرنا ہے ورنہ میرا بھی ٹیسٹ پوزِٹیو آسکتا ہے. اور یوں تعلیمی اِداروں میں نشے کے اِستعمال پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔

ہمارے بچے ہمارے نوجوان ہمارا بہت ہی قیمتی اثاثہ ہیں اِنہیں یُوں برباد ہوتے دیکھ کر کم از کم میں بطور ڈاکٹر اور بطور والد اپنے حِصے کا کام ضرور کرنا چاہتا ہوں اور اس میں مجھے آپ سب کے تعاون کی ضرورت ہے۔

تحریر: حفصہ شاہد کلینکل سائکالوجسٹ
خیالات: ڈاکٹر صداقت علی