رائٹر: سعد شہید
ایڈیٹر: عطرت زہرہِ
سٹیفن کووے کی مشہور زمانہ کتاب، سیون ہبٹس آف ہائی لی ایفکٹو پیپل میں کووے لکھتاہے کہ زیادہ تر لوگ بات کو سمجھنے کی نیت سے نہیں سنتے بلکہ وہ سنتے ہیں تاکہ وہ اس کا جواب دے سکیں۔
بطور ماہر نفسیات پریکٹس کے دوران میں نے دریافت کیا کہ گفتگو میں کی جانے والی سب سے معمولی غلطی بھی تعلقات کو خراب کر دیتی ہیں، اس قسم کی بنیادی غلطیاں ہر طرح کے رشتے کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ان میں کسی ذہنی مسائل کے معالج کا اپنے مریض کلائنٹ کے ساتھ رشتہ بھی شامل ہے۔ ان غلطیوں کے باعث ہم اپنے متاثر کن رابطوں کی سچی توانائی کو کھو دیتے ہیں۔ جبکہ بات چیت کے ذریعے ہی ہم کسی شخص کا علاج کرتے ہیں یا کسی کو بااختیار بناتے ہیں جو کہ ہمارا مقصد بھی ہوتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کسی سے رابطے اور علاج کے لئے کون سا نقطہ نظر استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے ضروری یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے اس کے حقیقی جذبات کو قبولیت دیں اور جیسے ہی ہم ان کو قبول کرتے ہیں ہم اس قابل بن جاتے ہیں کہ مریض کے ساتھ ایک مضبوط تال میل بنا لیں۔
مندرجہ ذیل کچھ بنیادی غلطیاں بیان کی جا رہی ہیں۔ جو گفتگو کے دوران کر نے سے ہمارے تعلقات میں خلل پڑتا ہے۔
نقطۂ نظر کی غلطی
پہلی بڑی غلطی جو ہم کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم دوسروں سے رابطے کے دوران اس بات سے آگاہ نہیں ہوتے کہ دوسروں پر ہمارا تاثر کیسا پڑ رہا ہے۔ ہمارے اندر عجیب رجحانات پائے جاتے ہیں، یا تو ہم اپنے نقطہ نظر میں غیر متحرک انداز اپناتے ہیں۔ یا پھر والہانہ انداز اپناتے ہیں تاکہ رشتے میں تال میل قائم کریں۔ غیر مناسب انداز میں آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا، خاموشی اور خود اپنی جسمانی حرکات سکنات کو نہ سمجھ پانا ہمارے تعلق اور رابطے کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ ہماری جسمانی حرکات وسکنات پر ہمارا مکمل قابو ہونا چاہیے اور ان کو اسی حوالے سے استعمال کرنا چاہیے جو ہم کرنا چاہ رہے ہیں۔ لوگوں سے ان کے تجربات اور حوالہ جات کی مناسبت سے ملنے سے ہی ہمیں ان کے ساتھ گہری سطح پر رابطہ استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ہمیں پہلے دوسروں کے حالات ونظریات کی عزت کرنی چاہیے تاکہ ہم ان کو صحت مند نظریہ فراہم کر سکیں۔
سمجھ بوجھ کی غلطی
ہمارے اندر دوسروں کے معاملات پر رائے دینے کا رجحان اسی انداز میں پایا جاتا ہے جیسا کہ ہم خود سوچتے ہیں۔ تاہم ان کے معاملات کے بارے میں ہم کیا سوچتے ہیں۔ اگر ہم ٹھیک طرح سے اس کی تشریح نہ کر سکیں تو ہمارا تعلق ہل کر رہ جاتا ہے اور دوسرا شخص ہمارے ساتھ منسلک نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ عقلمندانہ نظریہ ہے کہ ہم کبھی دوسروں کے حالات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، ہمیشہ اپنے ادراک کی تکمیل کے عمل کو مناسب وقت دیں اور اس وقت تک انتظار کریں جب تک انتظار کر سکیں جب تک کہ سامنے والے کی مکمل کہانی نہ سن لیں ہمدردی صرف اس وقت ہی موثر تابت ہو سکتی ہے اور ہم حقیقی طور پر یہ جاننے کے قابل ہو جائیں کہ سامنے والا شخص کیا محسوس کر رہا ہے۔
اپنی تصدیق شدہ سوچ کی طرف داری کرنا، ہمارے ادراک کو مسخ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے میں کھلے دماغ کے ساتھ کام لینے سے ہی مسئلہ حل ہوتا ہے۔
زبان کی غلطی
بات چیت کے ذریعے علاج میں موثر الفاظ اور محاوروں کا چناؤ اور احساسات کو مناسب انداز میں بیان کرنا ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی شخص کے جذبات، احساسات اور معاملات کی موثر انداز میں تصدیق اور توثیق کے لئے ہمیں پر تاثیر الفاظ اور محاورات کو سیکھنا چاہیے تاکہ بات چیت کے دوران منا سب طور پر استعمال میں لائے جا سکیں ۔یہ ہمارے لیے نہایت فیصلہ کن ثابت ہو گا کیونکہ الفاظ اور زبان کی کششی پر ہی جذبات سوار ہوتے ہیں ۔بات چیت کے ذریعے علاج کی خوبصورتی اور تاثیر کا دارو مدار بھی اسی پر ہوتا ہے۔
فیصلہ کرنے میں غلطی
ایک اور عمومی غلطی جو ہم گفتگو کے دوران کرتے ہیں وہ ہے۔ فیصلہ کرنا یا اندازے لگاتے رہنا۔ کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ دوران گفتگو اس کے بارے میں اندازے لگائے جائیں۔ حقائق کو جانچنے اور اندازے لگانے میں بہت فرق ہوتا ہے اور اگر اس فرق سمجھنے میں ہم کسی الجھن کا شکار ہوں گے تو ہمارے لئے موثر رابطہ قائم کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ انسانیت کے مکتب فکر کے مشہور نفسیات دان کارل روجرز نے اس مسئلے سے نجات کے لئے ایک بنیادی اصول بنایا ہے۔Unconditional positive regard غیر مشروط مثبت تعلیم‘‘گفتگو میں کرشماتی اثر دکھاتی ہے۔
دوسروں کی ذمہ داری خود محسوس کرنے کی غلطی
ہمدردی اور دوسرے کے حالات کے بارے میں سمجھ بوجھ قائم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دوسروں کے حالات کا ذمہ اٹھا لیں۔ لیکن ہم اس طرح کی غلطی کئی بار کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص آپ کے سامنے اظہار خیال کرے تو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے۔ پہلا مقصد صرف سننا ہونا چاہیے ایک موثر توثیق کار تصدیق کنندہ کے طور پر ہمارا مقصد دوسروں کے مسائل کو حل کرنا نہیں بلکہ ان مسائل کو سمجھنا ہے اور ان کے حقیقی جذبات کو قبولیت دینا ہوتا ہے اور اس سارے عمل میں ان کو اپنی جذباتی مضبوطی سے مدد دینا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات وہ خود بھی اپنے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ جبکہ یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے ایک موثر تصدیق کنندہ علاج کا آغاز کرتا ہے۔ ہم اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ جب کوئی شخص ہمارے ساتھ اپنے احساسات کا اظہار کرے گا تو ہمیں اس کے مسئلے کے حل کا فوری ذمہ اٹھاتے ہوئے دکھائی دینا چاہیے۔ اس طریقے سے بات چیت کرنے سے تاثیر کم ہو جاتی ہے اور ایک صحت مند تعلق کی بجائے ایک زہریلا تعلق جنم لے لیتا ہے۔
حفاظتی تدابیر
تصدیق اور توثیق کا ہنر سیکھیں، جی ہاں یہ مہارت سیکھی جا سکتی ہے۔ ہماری بات چیت اس ہنر کے ذریعے بہت زیادہ متاثر کن ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے تعلقات بہت مضبوط ہو سکتے ہیں اس مہارت کو سیکھنے کے پہلے درجے پر ہمارے لئے ضروری کہ ہم سب سے پہلے اپنے احساسات اور محسوسات کی تصدیق کر کے ان کو قبولیت دیں۔ مشکل قسم کی صورتحال میں ہم اپنے احساسات کو سمجھنے اور قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر ہم ایک دفعہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم اس قابل بن جاتے ہیں کہ ان کو منتقی طور پر اور مناسب انداز میں ان پر کام کر سکیں۔ یہی وہ اوزار ہے، جس کے استعمال سے ہم اپنی غلطیوں کو سدھارنے کے قابل بنتے ہیں۔ جن غلطیوں کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ بات چیت کے دوران ہمیں ذمہ داریوں کو اسی جگہ رہنے دینا چاہیے جہاں کی یہ ہوتی ہیں، اسی طرح سے ہم سامنے والے شخص کو اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے مضبوط بناتے ہیں۔ ہم ان کے جذبات کا احترام کرتے ہیں، ان کے احساسات کو، دل ودماغ سے سنتے ہیں اور اس طرح ہم ایک شاندار تعلق قائم کرتے ہیں۔