منشیات بم

The Drug Bomb

شاہ میر 21 سال کا خوبصورت نوجوان تھا‘ والد بزنس مین ہیں‘ کراچی میں رہتے ہیں‘ یہ لمز لاہور میں بی سی ایس آنرز کا طالب علم تھا‘ یہ 9 دسمبر جمعہ کی شام ہاسٹل سے نکلا اور اتوار 11 دسمبر کو واپس آیا‘ کمرے میں گیا اور اگلی صبح باہر نہ نکلا‘ انتظامیہ نے دروازہ کھولا‘ وہ بیڈ پر بے سُدھ پڑا تھا‘ ہسپتال لے جایا گیا‘ ڈاکٹروں نے بتایا‘ وہ رات کے کسی پہر فوت ہو گیا تھا‘ پوسٹ مارٹم ہوا‘ پتہ چلا شاہ میر ہیروئن کا عادی تھا‘ وہ مسلسل تین دن ہیروئن پیتا رہا‘ اس نے ہیروئن کی زیادہ ڈوز لے لی اور وہ زندگی کی سرحد پار کر گیا‘ یہ خبر خوفناک تھی‘ ملک کے لاکھوں والدین دہل گئے‘ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ملک میں اگر لمز جیسے اداروں کے یہ حالات ہیں تو پھر عام تعلیمی اداروں کی کیا حالت ہو گی؟ پاکستانی والدین کو یہ سوچنے کی ضرورت نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ پانی سر سے بلند ہو چکا ہے‘ پاکستان منشیات کی خوفناک وباءکا شکار ہے اور یہ وباءآنے والے برسوں میں ملک کا سب سے بڑا چیلنج ہو گی۔پاکستان میں روزانہ شاہ میر جیسے سات سو بچے منشیات کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں‘ آپ اس تعداد کو 30اور بعد ازاں 12 سے ضرب دے کر دیکھ لیں آپ کا دل دہل جائے گا‘ آپ کسی دن اعداد و شمار نکال کر دیکھ لیجئے آپ دھاڑیں مارنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ پاکستان میں 60 لاکھ لوگ منشیات کے عادی ہیں
دنیا میں 41 ایسے ملک ہیں جن کی آبادی ہمارے نشئیوں سے کم ہے‘ کے پی کے کے 11 فیصد لوگ منشیات کے چنگل میں ہیں جبکہ باقی صوبوں کے 5 سے 6 فیصد لوگ اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکتے‘ ملک میں پانچ برسوں میں منشیات کے استعمال میں 35 فیصد اضافہ ہوا‘ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں تین سال پہلے تک روزانہ منشیات کا ایک مریض آتا تھا‘ یہ تعداد اب 8 سے 10 مریض روز ہو چکی ہے‘ ملک میں ہر سال 44 ٹن ہیروئن استعمال ہوتی ہے‘ یہ امریکا اور یورپ میں استعمال ہونے والی ہیروئن سے تین گنا زیادہ ہے‘ پاکستان کے 30 لاکھ نشئیوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے لیکن حکومت کے پاس 40 مریضوں کی گنجائش ہے اور ملک کے زیادہ تر نشئیوں کی عمریں 24 سال سے کم ہیں‘ ہم اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ لوگ منشیات کے عادی کیوں ہو رہے ہیں؟تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ منشیات کی دستیابی ہے‘ ہم منشیات کے مرکز افغانستان کی سرحد پر واقع ہیں اور افغانستان میں پانچ سال پہلے تک 7 ہزار ہیکٹر رقبے پر پوست کاشت ہوتی تھی‘ یہ کاشت بڑھ کر 2 لاکھ 25 ہزار ہیکٹر ہو چکی ہے اور اس پیداوار کا 80 فیصد حصہ پاکستان پہنچ رہا ہے‘ یہ ہمارے بچوں کی رگوں کا رزق بن رہا ہے‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان میں 2011ءمیں پوست کی کاشت سو فیصد ختم ہو گئی تھی‘ ہمارے ملک میں اب تمام منشیات سرحد پار سے آ رہی ہیں۔

‘ دوسری وجہ منشیات کی روک تھام کا کمزور نظام ہے‘ ملک میں اینٹی نارکوٹکس فورس موجود ہے لیکن اس کا بجٹ‘ افرادی قوت اور ٹیکنالوجی قابل افسوس ہے‘ یہ لوگ اتنے کم ہیں کہ ہم اگر ساری فورس اسلام آباد پر لگا دیں تو بھی ہم ایک شہر کو منشیات فری نہیں کر سکیں گے‘ ہمارا نظام اس قدر کمزور ہے کہ 21 دسمبر کو 17 کلو گرام ہیروئن پی آئی اے کی فلائیٹ کے اندر پہنچ گئی‘ہماری ائیر ہوسٹس تک منشیات سمگلنگ میں پکڑی جاتی ہیں‘ ملک کے بے شمار منشیات فروش پارلیمنٹ تک پہنچ جاتے ہیں‘ یہ اوپر تک رابطوں میں رہتے ہیں اور کوئی ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتا‘ تھانے‘ مال خانے اور جیلیں منشیات فروشی کے اڈے ہیں‘ پورا ملک یہ حقیقت جانتا ہے لیکن سسٹم یہ اڈے بند نہیں کرا پا رہا اور تیسری وجہ ہمارے جغرافیائی حالات ہیں‘ ہمارے خطے میں 35 سال سے جنگیں چل رہی ہیں‘ افغانستان کی جنگ ہوئی‘ پھر امریکا کی وار آن ٹیرر کا آغاز ہوا اور اب ملک کی گلیاں‘ مسجدیں‘ سکول اور بازار دہشت گردوں کا نشانہ ہیں اور یہ حقیقت ہے دنیا میں جہاں لڑائیاں ہوتی ہیں وہاں بے سکونی‘ بے راہ روی اور مذہبی شدت پسندی تینوں بڑھ جاتی ہیں اور یہ تینوں مل کر معاشرے کو منشیات کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔

ہم 35 برسوں سے اس صورتحال کا شکار ہیں اور یہ صورتحال اب پوری طرح گل کھلا رہی ہے۔ہمارے حالات کس قدر خراب ہیں آپ اس کا اندازہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لگا لیجئے‘ ماریہ سلطان نے 19 اکتوبر کو سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے نارکوٹکس کو بریفنگ دی‘ بریفنگ میں انکشاف ہوا اسلام آباد کے نجی سکولوں کے 44 سے 53 فیصد طالب علم منشیات کے عادی ہیں‘ یہ 8 سے 16 سال کے بچے ہیں‘ یہ بچے اساتذہ‘ کینٹین‘ ساتھی طالب علموں اور سکول کے سامنے موجود ٹھیلوں سے منشیات خریدتے ہیں‘ یہ شراب‘ چرس‘ ہیروئن‘ کوکین اور گولیاں استعمال کرتے ہیں‘ یہ خوشحال گھرانوں کے بچے ہیں‘ پیسہ ان کا ایشو نہیں چنانچہ یہ بچپن ہی سے منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں‘کمیٹی کے ارکان یہ سن کر دہل گئے اور انہوں نے حکومت سے 15 دن میں رپورٹ مانگ لی لیکن حکومت نے اڑھائی ماہ گزرنے کے باوجود کمیٹی کو رپورٹ نہیں دی‘ قائداعظم یونیورسٹی ملک کی معتبر ترین یونیورسٹی ہے‘ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا قائداعظم یونیورسٹی میں منشیات کے استعمال میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہے‘ وائس چانسلر نے حکومت سے درخواست کی‘ یونیورسٹی میں انسداد منشیات فورس کا نیٹ ورک اور پولیس چوکیاں قائم کی جائیں‘ یہ ہیں حالات لیکن ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بلی کے سامنے بیٹھے ہیں۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان درد دل رکھتے ہیں‘ یہ جرات مند اور مخلص بھی ہیں‘ یہ کسی دن اسلام آباد کی انٹیلی جنس رپورٹیں منگوا کر دیکھ لیں‘ ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔

وفاقی دارالحکومت میں شراب کی سپلائی کے 32 اڈے ہیں‘ ان اڈوں پر ماہانہ اربوں روپے کی شراب بکتی ہے‘ شہر میں کوکین بھی عام ہے‘ ہیروئن بھی وباءبن چکی ہے اور چرس کو لوگ اب نشہ ہی نہیں سمجھتے‘ شہر میں بیسیوں پرائیویٹ کلب ہیں‘ یہ کلبز روز رات کے وقت آباد ہوتے ہیں اور پولیس ان کی حفاظت کرتی ہے‘ پارٹی کلچر وفاقی دارالحکومت کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے اور ان پارٹیوں میں سب کچھ چلتا ہے‘ سکولوں اور کالجوں میں بھی منشیات عام ہیں‘ یہ عفریت زنانہ کالجوں میں بھی سرایت کر چکا ہے‘پیرودہائی کا بس اڈہ منشیات فروشی اور میل پراسٹی چیوشن کا مرکز ہے‘ اینٹی نارکوٹکس فورس نے وہاں سے درجنوں مرتبہ بااثر اور معزز خاندانوں کی بچیاں برآمد کیں‘ یہ بچیاں نشے کی ایک پڑیا کے بدلے کنڈیکٹروں اور بس ڈرائیوروں کے ہاتھوں ذلیل ہوتی ہیں‘ یہ گھر سے کالج جاتی ہیں‘ کالج سے غائب ہوتی ہیں اور شام کے وقت گھر واپس پہنچ جاتی ہیں‘ وزیر داخلہ کسی دن انٹیلی جینس رپورٹیں منگوائیں‘ یہ اے این ایف کا ڈیٹا بھی منگوا لیں‘ مجھے یقین ہے یہ رو پڑیں گے‘ چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ بھی کسی رات بھیس بدل کر شہر میں نکل جائیں‘ یہ سڑکوں پر ایسی مخلوق دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے جو شکل سے انسان دکھائی دیتی ہے لیکن یہ جانوروں کی طرح کچرے کے ڈھیروں اور نالیوں میں گری ہو گی‘ آپ کسی رات بارہ بجے کے بعد اسلام آباد کی مارگلہ روڈ پر کھڑے ہو جائیں‘ آپ کو زیادہ تر گاڑیاں لہراتی دکھائی دیں گی‘یہ لوگ کون ہیں‘ یہ نشے میں ڈرائیونگ کیوں کرتے ہیں اور پولیس انہیں روکتی کیوں نہیں؟‘ آپ کو یہ جواب ایک ہی رات میں مل جائے گا‘ اسلام آباد میں اوسطاً بیس سے تیس ایکسیڈنٹ روز ہوتے ہیں اور ان ایکسیڈنٹس کا محرک نشہ ہوتا ہے لیکن ہم اس ایشو کو قابل غور ہی نہیں سمجھتے۔

ہمارے ملک میں ہر سال کچی شراب کی وجہ سے ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں‘ کرسمس پر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 49 لوگ ہلاک اور 60 آنکھوں‘ پھیپھڑوں اور گردوں سے محروم ہو گئے‘ ان لوگوں کو آفٹر شیو لوشن میں کیمیکل ڈال کر دے دیا گیا تھا‘ شراب بیچنے والے نے اس سودے میں صرف پانچ ہزار روپے کمائے‘یہ کیا ہے؟ یہ سماجی منافقت ہے‘ ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن یہ کچی اور پکی دونوں حالتوں میں سرعام بک رہی ہے‘لوگ پی بھی رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں‘ کیا ہم اس منافقت کے ساتھ معاشرہ چلا لیں گے؟ میرا خیال ہے نہیں اور وفاقی حکومت اگر ملک کو ڈرگ فری نہیں کر سکتی تو یہ کچھ بھی نہیں کر سکتی‘ یہ اگر سکولوں اور کالجوں کو نہیں بچا سکتی اور ہم اگر صرف اسلام آباد کو منشیات سے پاک نہیں کر سکتے تو پھر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے‘ ہمیں پھر قوم کہلانے کا کوئی حق نہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجئے‘ ہماری پانچ چھ فیصد آبادی اگر منشیات کا شکار ہو گی‘ یہ اگر نشے کے عالم میں نالیوں میں پڑی ہو گی تو ہم خواہ ملک میں دس ”سی پیک“بنا دیں لوگوں کو کیا فائدہ ہو گا‘ وزیراعظم خواہ پوری قوم کا مقدر بدل دیں قوم کو کیا فائدہ ہو گا؟۔ملک منشیات کے بم پر بیٹھا ہے‘ شاہ میر جیسے بچے روز مر رہے ہیں لیکن ہم کامیابیوں کے ڈھول پیٹ رہے ہیں‘ کیا دنیا میں ہم سے بڑا کوئی بے وقوف ہے‘ سوچئے اور جواب دیجئے۔شاہ میر 21 سال کا خوبصورت نوجوان تھا‘ والد بزنس مین ہیں‘ کراچی میں رہتے ہیں‘ یہ لمز لاہور میں بی سی ایس آنرز کا طالب علم تھا‘ یہ 9 دسمبر جمعہ کی شام ہاسٹل سے نکلا اور اتوار 11 دسمبر کو واپس آیا‘ کمرے میں گیا اور اگلی صبح باہر نہ نکلا‘ انتظامیہ نے دروازہ کھولا‘ وہ بیڈ پر بے سود پڑا تھا‘ ہسپتال لے جایا گیا‘ ڈاکٹروں نے بتایا‘ وہ رات کے کسی پہر فوت ہو گیا تھا‘ پوسٹ مارٹم ہوا‘ پتہ چلا شاہ میر ہیروئن کا عادی تھا‘وہ مسلسل تین دن ہیروئن پیتا رہا‘ اس نے ہیروئن کی زیادہ ڈوز لے لی اور وہ زندگی کی سرحد پار کر گیا‘ یہ خبر خوفناک تھی‘ ملک کے لاکھوں والدین دہل گئے‘ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ملک میں اگر لمز جیسے اداروں کے یہ حالات ہیں تو پھر عام تعلیمی اداروں کی کیا حالت ہو گی؟

پاکستانی والدین کو یہ سوچنے کی ضرورت نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ پانی سر سے بلند ہو چکا ہے‘ پاکستان منشیات کی خوفناک وباءکا شکار ہے اور یہ وباءآنے والے برسوں میں ملک کا سب سے بڑا چیلنج ہو گی۔پاکستان میں روزانہ شاہ میر جیسے سات سو بچے منشیات کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں‘ آپ اس تعداد کو 30اور بعد ازاں 12 سے ضرب دے کر دیکھ لیں آپ کا دل دہل جائے گا‘ آپ کسی دن اعداد و شمار نکال کر دیکھ لیجئے آپ دھاڑیں مارنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ پاکستان میں 60 لاکھ لوگ منشیات کے عادی ہیں‘ دنیا میں 41 ایسے ملک ہیں جن کی آبادی ہمارے نشئیوں سے کم ہے‘ کے پی کے کے 11 فیصد لوگ منشیات کے چنگل میں ہیں جبکہ باقی صوبوں کے 5 سے 6 فیصد لوگ اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکتے‘ ملک میں پانچ برسوں میں منشیات کے استعمال میں 35 فیصد اضافہ ہوا‘ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں تین سال پہلے تک روزانہ منشیات کا ایک مریض آتا تھا‘ یہ تعداد اب 8 سے 10 مریض روز ہو چکی ہے‘ ملک میں ہر سال 44 ٹن ہیروئن استعمال ہوتی ہے‘ یہ امریکا اور یورپ میں استعمال ہونے والی ہیروئن سے تین گنا زیادہ ہے‘ پاکستان کے 30 لاکھ نشئیوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے لیکن حکومت کے پاس 40 مریضوں کی گنجائش ہے اور ملک کے زیادہ تر نشئیوں کی عمریں 24 سال سے کم ہیں‘ ہم اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ لوگ منشیات کے عادی کیوں ہو رہے ہیں؟تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ منشیات کی دستیابی ہے‘ ہم منشیات کے مرکز افغانستان کی سرحد پر واقع ہیں اور افغانستان میں پانچ سال پہلے تک 7 ہزار ہیکٹر رقبے پر پوست کاشت ہوتی تھی‘ یہ کاشت بڑھ کر 2 لاکھ 25 ہزار ہیکٹر ہو چکی ہے اور اس پیداوار کا 80 فیصد حصہ پاکستان پہنچ رہا ہے‘ یہ ہمارے بچوں کی رگوں کا رزق بن رہا ہے‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی پاکستان میں 2011ءمیں پوست کی کاشت سو فیصد ختم ہو گئی تھی‘ ہمارے ملک میں اب تمام منشیات سرحد پار سے آ رہی ہیں‘ دوسری وجہ منشیات کی روک تھام کا کمزور نظام ہے‘ ملک میں اینٹی نارکوٹکس فورس موجود ہے لیکن اس کا بجٹ‘ افرادی قوت اور ٹیکنالوجی قابل افسوس ہے‘ یہ لوگ اتنے کم ہیں کہ ہم اگر ساری فورس اسلام آباد پر لگا دیں تو بھی ہم ایک شہر کو منشیات فری نہیں کر سکیں گے‘ ہمارا نظام اس قدر کمزور ہے کہ 21 دسمبر کو 17 کلو گرام ہیروئن پی آئی اے کی فلائیٹ کے اندر پہنچ گئی‘ہماری ائیر ہوسٹس تک منشیات سمگلنگ میں پکڑی جاتی ہیں‘ ملک کے بے شمار منشیات فروش پارلیمنٹ تک پہنچ جاتے ہیں‘ یہ اوپر تک رابطوں میں رہتے ہیں اور کوئی ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتا‘ تھانے‘ مال خانے اور جیلیں منشیات فروشی کے اڈے ہیں‘ پورا ملک یہ حقیقت جانتا ہے لیکن سسٹم یہ اڈے بند نہیں کرا پا رہا اور تیسری وجہ ہمارے جغرافیائی حالات ہیں‘ ہمارے خطے میں 35 سال سے جنگیں چل رہی ہیں‘ افغانستان کی جنگ ہوئی‘ پھر امریکا کی وار آن ٹیرر کا آغاز ہوا اور اب ملک کی گلیاں‘ مسجدیں‘ سکول اور بازار دہشت گردوں کا نشانہ ہیں اور یہ حقیقت ہے دنیا میں جہاں لڑائیاں ہوتی ہیں وہاں بے سکونی‘ بے راہ روی اور مذہبی شدت پسندی تینوں بڑھ جاتی ہیں اور یہ تینوں مل کر معاشرے کو منشیات کی طرف دھکیل دیتی ہیں‘ ہم 35 برسوں سے اس صورتحال کا شکار ہیں اور یہ صورتحال اب پوری طرح گل کھلا رہی ہے۔

ہمارے حالات کس قدر خراب ہیں آپ اس کا اندازہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لگا لیجئے‘ ماریہ سلطان نے 19 اکتوبر کو سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے نارکوٹکس کو بریفنگ دی‘ بریفنگ میں انکشاف ہوا اسلام آباد کے نجی سکولوں کے 44 سے 53 فیصد طالب علم منشیات کے عادی ہیں‘ یہ 8 سے 16 سال کے بچے ہیں‘ یہ بچے اساتذہ‘ کینٹین‘ ساتھی طالب علموں اور سکول کے سامنے موجود ٹھیلوں سے منشیات خریدتے ہیں‘ یہ شراب‘ چرس‘ ہیروئن‘ کوکین اور گولیاں استعمال کرتے ہیں‘ یہ خوشحال گھرانوں کے بچے ہیں‘ پیسہ ان کا ایشو نہیں چنانچہ یہ بچپن ہی سے منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔

کمیٹی کے ارکان یہ سن کر دہل گئے اور انہوں نے حکومت سے 15 دن میں رپورٹ مانگ لی لیکن حکومت نے اڑھائی ماہ گزرنے کے باوجود کمیٹی کو رپورٹ نہیں دی‘ قائداعظم یونیورسٹی ملک کی معتبر ترین یونیورسٹی ہے‘ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کمیٹی کے سامنے اعتراف کیا قائداعظم یونیورسٹی میں منشیات کے استعمال میں خوفناک اضافہ ہوچکا ہے‘ وائس چانسلر نے حکومت سے درخواست کی‘ یونیورسٹی میں انسداد منشیات فورس کا نیٹ ورک اور پولیس چوکیاں قائم کی جائیں‘ یہ ہیں حالات لیکن ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بلی کے سامنے بیٹھے ہیں۔وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان درد دل رکھتے ہیں‘ یہ جرات مند اور مخلص بھی ہیں‘ یہ کسی دن اسلام آباد کی انٹیلی جنس رپورٹیں منگوا کر دیکھ لیں‘ ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے‘ وفاقی دارالحکومت میں شراب کی سپلائی کے 32 اڈے ہیں‘ ان اڈوں پر ماہانہ اربوں روپے کی شراب بکتی ہے‘ شہر میں کوکین بھی عام ہے‘ ہیروئن بھی وباءبن چکی ہے اور چرس کو لوگ اب نشہ ہی نہیں سمجھتے‘ شہر میں بیسیوں پرائیویٹ کلب ہیں‘ یہ کلبز روز رات کے وقت آباد ہوتے ہیں اور پولیس ان کی حفاظت کرتی ہے‘ پارٹی کلچر وفاقی دارالحکومت کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے اور ان پارٹیوں میں سب کچھ چلتا ہے‘ سکولوں اور کالجوں میں بھی منشیات عام ہیں‘ یہ عفریت زنانہ کالجوں میں بھی سرایت کر چکا ہے‘پیرودہائی کا بس اڈہ منشیات فروشی اور میل پراسٹی چیوشن کا مرکز ہے‘ اینٹی نارکوٹکس فورس نے وہاں سے درجنوں مرتبہ بااثر اور معزز خاندانوں کی بچیاں برآمد کیں‘ یہ بچیاں نشے کی ایک پڑیا کے بدلے کنڈیکٹروں اور بس ڈرائیوروں کے ہاتھوں ذلیل ہوتی ہیں‘ یہ گھر سے کالج جاتی ہیں‘ کالج سے غائب ہوتی ہیں اور شام کے وقت گھر واپس پہنچ جاتی ہیں‘ وزیر داخلہ کسی دن انٹیلی جینس رپورٹیں منگوائیں‘ یہ اے این ایف کا ڈیٹا بھی منگوا لیں‘ مجھے یقین ہے یہ رو پڑیں گے‘ چاروں صوبوں کے وزراءاعلیٰ بھی کسی رات بھیس بدل کر شہر میں نکل جائیں‘ یہ سڑکوں پر ایسی مخلوق دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے جو شکل سے انسان دکھائی دیتی ہے لیکن یہ جانوروں کی طرح کچرے کے ڈھیروں اور نالیوں میں گری ہو گی‘ آپ کسی رات بارہ بجے کے بعد اسلام آباد کی مارگلہ روڈ پر کھڑے ہو جائیں‘ آپ کو زیادہ تر گاڑیاں لہراتی دکھائی دیں گی‘یہ لوگ کون ہیں؟

یہ نشے میں ڈرائیونگ کیوں کرتے ہیں اور پولیس انہیں روکتی کیوں نہیں؟‘ آپ کو یہ جواب ایک ہی رات میں مل جائے گا‘ اسلام آباد میں اوسطاً بیس سے تیس ایکسیڈنٹ روز ہوتے ہیں اور ان ایکسیڈنٹس کا محرک نشہ ہوتا ہے لیکن ہم اس ایشو کو قابل غور ہی نہیں سمجھتے‘ ہمارے ملک میں ہر سال کچی شراب کی وجہ سے ہزاروں لوگ مر جاتے ہیں‘ کرسمس پر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 49 لوگ ہلاک اور 60 آنکھوں‘ پھیپھڑوں اور گردوں سے محروم ہو گئے‘ ان لوگوں کو آفٹر شیو لوشن میں کیمیکل ڈال کر دے دیا گیا تھا‘ شراب بیچنے والے نے اس سودے میں صرف پانچ ہزار روپے کمائے‘یہ کیا ہے؟ یہ سماجی منافقت ہے‘ ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن یہ کچی اور پکی دونوں حالتوں میں سرعام بک رہی ہے‘لوگ پی بھی رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں‘ کیا ہم اس منافقت کے ساتھ معاشرہ چلا لیں گے؟ میرا خیال ہے نہیں اور وفاقی حکومت اگر ملک کو ڈرگ فری نہیں کر سکتی تو یہ کچھ بھی نہیں کر سکتی‘ یہ اگر سکولوں اور کالجوں کو نہیں بچا سکتی اور ہم اگر صرف اسلام آباد کو منشیات سے پاک نہیں کر سکتے تو پھر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے‘ ہمیں پھر قوم کہلانے کا کوئی حق نہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجئے‘ ہماری پانچ چھ فیصد آبادی اگر منشیات کا شکار ہو گی‘ یہ اگر نشے کے عالم میں نالیوں میں پڑی ہو گی تو ہم خواہ ملک میں دس ”سی پیک“بنا دیں لوگوں کو کیا فائدہ ہو گا‘ وزیراعظم خواہ پوری قوم کا مقدر بدل دیں قوم کو کیا فائدہ ہو گا؟۔ملک منشیات کے بم پر بیٹھا ہے‘ شاہ میر جیسے بچے روز مر رہے ہیں لیکن ہم کامیابیوں کے ڈھول پیٹ رہے ہیں‘ کیا دنیا میں ہم سے بڑا کوئی بے وقوف ہے‘ سوچئے اور جواب دیجئے۔