مُصنف: یاسر
ایڈیٹر: سحرش سرفراز
آپ اپنی ماضی کی جڑوں سے منہ موڑ کر اپنی شخصیت کو تباہ کردیتے ہیں۔ اورپھر آپ کی زندگی تباہی کے دھانے پر آجاتی ہے۔ اگر ہم اس مسلئے سے مناسب طریقے سے نہ نمٹ سکیں تو یہ ہمیں تباہ بھی کرسکتا ہے۔ یہ ہمارے بیرونی راستے میں کس طرح تکلیف دہ ہوسکتے ہیں ، اور کس طرح ہم جذباتی بوجھ کو ختم کرنے کے لیے اپنی طاقت کا اندازہ لگاسکتے ہیں، ہمیں ان تمام مسائل کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ ایسے بہت سارے حادثات ہوتے ہیں جو آتے ہیں اورجاتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ کچھ ایسے الفاظ ملاتے ہیں جو ہماری جانوں کے اندر جکڑجاتے ہیں یا اِن میں سماء جاتے ہیں، یہ محض لمحات ہیں جو آپ کے ماضی کی یادوں میں ہونگے۔ اگر آپ اپنی زندگی میں ایسے َ َََََََََََ معا ملات حل کرتے ہیں جو آپ کی زندگی کو درہم برہم کرسکتی ہے تو بڑا مشکل ہے کہ آپ اپنی زندگی کے خاکے میں اس ساری صورتحال کو ختم کرسکیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہوتا ہے جب کوئی کسی کا لحاظ کئے بغیرتجزیہ پیش کرتا ہے جو اسکو قابل قبول نہیں ہوتا۔ آپ کیسے اپنا صحیح اظہار کریں گے، ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو پسند کریں یا نہ پسند کریں، مگر اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ کے کوئی منفی تصویر کشی کی ہے ۔ اس آرٹیکل میں ہم دراصل ان وجوہات کو تلاش کریں گے جو ہماری شناخت ہوتی ہیں۔ ایسے واقعات جہاں ہمیں تعریفیں نہیں ملتی وہاں ہماری غلطی پر ہمیں دل برداشتہ کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ پریشان ضرور ہوتے ہیں لیکن اس طرح کے ردعمل سے وہ حیران نہیں ہوتے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے ہمدردی لینا مس کردیا ہے ، یقیناًآپ کو لگتا ہے کہ اس گندگی کی وجہ سے آپ کی دیوار سے ٹکر ہوتی ہے تو یہ غلط ہے۔ آپ کے جذبات بروقت ابھرے ہوتے ہیں۔ دوسرا آدمی آپ کو سن رہا ہوتا ہے یہ آپ کو اہمیت دیتا ہے آپ سے جذباتی وابستگی کا اظہار بھی کرتا ہے لیکن وہ اس کو یاد نہیں رکھے گا۔ یہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے آپ اپنے آپ کو مکمل طور پر قبول کریں ورنہ آگے بڑھنے میں مشکل ہوگی۔ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہونا محسوس کیاگیا ان سب کو چھوڑ دو بار بار ٹٹولنا ہمارے فیصلے کو برباد کردیگا۔
میرے ایک دوست نے مجھے ایک لطیفہ سنایا کہ میرے والد صاحب نے میری زندگی برباد کردی۔ پوری دنیا میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح آپ کے والد ین آپ کے حوالے سے وہ سب کچھ کرسکتے تھے جو نہیں ہوا، کیا یہ مناسب سوچ ہے کہ ہمارے والد ین ہماری زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں ۔ کیا ان کے لیے ہمارے وجود اور ذات کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے؟ انہوں نے ہمیں اٹھایا، انہو ں نے یہ بھی بتایا کہ ہم اتنے اچھے نہیں تھے۔ ہم انکی توقعات پر پورا نہیں اترتے ہیں۔ ہم نے ان کی توقعات کے برعکس نقصان بھی پہنچایا۔ حتی کہ اگر یہ پیچھے مڑ کردیکھتے ہیں ایسے بہت سارے واقعات ہیں جہاں آپ اپنا اور دوسروں کی مرضی کے درمیان جھول رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم دوسرے پہلووٗں کا جائزہ لیتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آیا کیسے ہمارے آباواجدادنے ہماری زندگی کو برباد کیا ہے؟ جب میرے دادا کا میرے ذہن میں نقش آتا ہے تو خودبخود ایک بے مطلب عکس نظر آتا ہے لیکن یہ سوچتے ہیں کہ کیا ہمارے والدین نے دادا کے فلسفہ کو منفی بناکر پیش کر رہے ہیں۔ اکثروبیشتر جب دادا یا نانا آپ سے اسطرح نہیں نمٹنے ہیں جیسے انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ نمٹانا کیوں؟ جب وہ اپنے نظریہ سے دنیاکو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی غلطیوں کو ختم نہیں کرسکتے، تب آپ کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ کس طرح آپ کے والدین بھی اس صورتحال سے جڑے ہیں اور کیا آپ کو لگتا ہے کہ اِنھوں نے ایک مظلوم کر طرح زندگی گزاری۔ دوسرا پہلو استاد ہیں جو کہ اپنے شاگردوں کی زندگی میں مثبت اندازہوتے ہیں اور اکثر ایسا نہیں کرپاتے اسطرح وہ کسی کا بھی مستقبل ، کیرئیر داؤ پر لگا دیتے ہیں اور انکو تباہ بھی کردیتے ہیں۔
تیسرا جب ہم کسی تھراپسٹ کا حوالہ دیتے ہیں تو ہم یہ غور کرتے ہیں کہ کیمپس کے کونسلر آپ کو آپ کے کالج تک رسائی دے دیتے ہیں آپ کو اس صورتحال کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ ایک چھوٹا کالج ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ وہ میرے لیے موذوں ہے لیکن آپ کا کونسلر آپ کو کہتا ہے کہ وہ کالج میں آپ نہیں جاسکتے یا آسکتے۔ اسطرح میں اور دوسرے کسی طالب علم کواس چھوٹی سی جگہ پرآجاتے ہیں اس طرح میں احساسی طبیعت اس طرح سے ایک بڑے کالج کی وجہ سے جو راہ جاتی ہے اور میں ایک چھوٹے کالج میں آتا ہوں یہ کس کا قصور ہے؟ میرا یا کونسلر کا؟ یہ سوال صرف سوال ہی رہنے دیتا ہوں۔ بلآخر جب آپ ناکام ہوجاتے ہیں تو آپ کو اس میں اپنا جو قصور نظر آتا ہے جو آپ کو Depressionکی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ یہ سب عجیب اور ناقابل اعتبار ہے کہ ہم خود قصوروار ہوتے ہیں کہ ہماری کاہلی کے پیچھے ہمارا ہی ہاتھ ہوتا ہے اس طرح جو لوگ دماغی صحت کے میدان میں موجود ہوتے ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں ہمارا ہی قصور ہوتا ہے جو کہ ہم ناکام ہوتے ہیں۔ مگر ٹھہرجایئے۔ اپنا رویہ تبدیل کریں اور اپنی زندگی تبدیل کریں۔ اب سوال کرنا چھوڑدیں اور عملی زندگی میں آجائیں۔