نشے کا شکار

ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارے اردگرد کوئی نہ کوئی شخص نشے کا شکار ہے۔ اگر وہ شخص ہمارا کوئی قریبی عزیز ہے تو اس کے نشہ کرتے رہنے سے جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں ہم خود کو ان سے کسی طور بھی متاثر ہونے سے نہیں روک سکتے۔ جیسے جیسے نشہ بڑھتا ہے، ویسے ویسے اہل خانہ کیلئے مسائل بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ اس لئے نشہ کو خاندان کی سانجھی بیماری کہا جاتا ہے اور اہل خانہ کیلئے ہم روگ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے نشے کی متاثرہ ہر گھر کی کہانی چونکا دینے والی ہے۔

نشے کی طلب

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دراصل نشے کی بیماری دو قسم کی ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں وہ افراد جن افراد کے جسم کے اندرونی نظام جیسے کہ جگر، نشے کے اثرات کو قبول نہیں کرتا اور نشے کو ضائع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نشہ کرنے والے کی طلب نہیں ہوتی اور وہ تسکین کے حصول کیلئے نشے کی مقدار بڑھاتا چلا جاتا ہے۔

اخلاقی بگاڑ

گزرے وقتوں نشے کو صرف اخلاقی بگاڑ کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب اکثریت مان چکی ہے کہ نشہ ایک بیماری ہے۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے لیکن یہ کہہ دینا کافی نہیں، جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر نشہ تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن وہ سب نشے کی بیماری کا شکار نہیں ہوتے، نہ ان سب کو مریض کہا جا سکتا ہے۔

پرلطف نشہ

نشے کا آغاز زیادہ تر نشہ کرنے والوں کی صحبت سے ہوتا ہے۔ اسے عام طور پرلطف اٹھانے، تھکن بھگانے اور چستی لانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ بے سکونی، نشے کا ماحول اور آسان دستیابی بھی اس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ گھریلو ناچاقی، ڈپریشن، عشق میں ناکامی، خرابی صحت، جنسی کمزوری، بے روز گاری، بوریت اور ٹینشن بھی اس کی وجہ بنتے ہیں۔

نشے سے الرجک

دوسری قسم میں جسم نشے کو زہریلا بنا دیتا ہے۔ جس سے مریض کی مت ماری جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ مریض کا جسم ایک طرح سے نشے سے الرجک ہو جاتا ہے یعنی نشہ کے معاملے میں جسم نارمل ردعمل ظاہر نہیں کرتا نارمل ردعمل یہ ہے کہ کوئی جتنا نشہ کرے اس پر اتنا ہی اثر ہو۔ لیکن نشہ کی بیماری لاحق ہو جائے تو نشہ اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ اس موقع پر مریض سمجھتا ہے کہ نشے میں کوئی نقص ہے لہذٰا وہ زیادہ سے زیادہ نشہ کرتا ہے حالانکہ نقص اس کے جسم میں ہوتا ہے۔

مثبت اثرات

ہم دیکھتے ہیں کہ آغاز میں ہر نشہ انسانی جسم اپنے مثبت اثرات پر مرتب کرتا ہے۔ اس کو شروع کرنے کی وجہ بھی عموماً وہی ہوتی ہے، جیسا کی شراب کی خاص خوبی سکون دینا ہے۔ کوکین جسم کو متحرک کرتی ہے۔ ہیروئین درد ختم کرنے میں اپنا کردارثانی نہیں رکھتی اور چرس خیالات اور نظریات بدل دیتی ہے۔

غمی و خوشی

یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ دنیا میں نشہ کرنے والوں کی جتنی تعداد ہے اتنی ہی نشہ شروع کرنے کی وجوہات ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ نشے کا استعمال پھولوں کی طرح غمی و خوشی ہر موقع پر کرتے ہیں۔ لیکن جو بات یاد کرنے کی ہے وہ یہ کہ نشہ کی ابتدا تو ایک جیسی ہو سکتی ہے لیکن اس کا انجام مختلف ہوتا ہے۔

مکمل بربادی

عام طور پردیکھنے میں آیا ہے کہ مکمل بربادی سے پہلے مریض کو اپنی بیماری کا اتنا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ وہ تو چلیں نشے کے اثر ہوتا ہے، اس کا خاندان بھی ٹوٹکوں (تعویذ، دھاگے، وعدے لینا، قسمیں دینا، طعن و تشنیع، نگرانی، مارپیٹ، رسیوں سے جکڑنا، کاروبار اور گھر سے بے دخل کرنا، عاق کرنا وغیرہ) کا سہارا لینے کو ہی کافی سمجھتا ہے۔

نشے کی بیماری

لیکن واضح رہے کہ منشیات کے یہ فائدے نشے کی بیماری میں خاصل نہیں ہوتے۔ یوں سمجھ لیں کہ نشہ کی بیماری میں یہ خصوصیات زنگ آلود ہوجاتی ہیں۔ پھر نشہ اور اس کی خصوصیات مریض کیلئے سراب بن جاتے ہیں اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتا رہ جاتا ہے۔

پل پل آنے والی تبدیلیاں

جیسے کہ دوسری بیماریوں میں قے، بخار وغیرہ۔ اس طرح مریض کی خود قریبی، مزاج کا اتار چڑھائو، روئیے میں پل پل آنے والی تبدیلیاں، جھوٹ، دھوکہ، بھلکڑپن اور فرائض سے لاپرواہی بھی اس بیماری کی چند علامتیں ہیں۔

اخلاقی پیمانہ

تاہم نشے کی بیماری کے بارے میں معلومات ہوں تو اس بیماری پر ابتدا میں ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ نشے کی بیماری میں مریض سے ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جنہیں اخلاقی پیمانے پرگھٹیا اور مجرمانہ سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ نشے کی بیماری کی علامت ہیں۔

غلطی کا ازالہ

یہاں پر اس غلطی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ مریض بیرونی وجوہات کی بنا پرنشے کی مقدارمیں اضافہ کرتا ہے۔ یعنی جتنے دکھ، اتنا نشہ۔ حقیقت یہ ہے کہ نشے کے مرض میں جسم زیادہ سے زیادہ نشہ طلب کرنا شروع کر دیتا ہے اور مریض یہ طلب پوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ شوقیہ نشہ کرنے والے، اس نشے کی مقدار، وقت اور جگہ کا کنٹرول رکھتے ہیں جبکہ نشے کا مریض یہ اختیار مکمل طورپر کھو دیتا ہے۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ نشے کے آثار پیدا ہوتے ہی نشہ چھوڑ دیں گے، وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ کوئی بھی نشہ کرنے والا زندگی کے کسی بھی مرحلے پر آہستہ آہستہ یا ایک دم نشے کا مریض بن سکتا ہے۔ جب تک اس کا اندازہ ہوتا ہے تب تک نشہ اس کی پاوّں کی زنجیر بن چکا ہوتا ہے۔ اس بات کا تعین آج تک نہیں ہو سکا کہ ایسا کب ہو گا؟

سائنسی تحقیق بس یہاں تک پہنچ سکی ہیں کہ جب کسی کا جسم نشہ قبول کرنے سے پہلے اسے ضائع کرنا شروع کر دے تو مرض کی ابتدا ہے اور انتہا یہ ہے کہ مریض کتنا بھی نشہ کرے، اس کی طلب نہیں ہوتی۔ یوں سمجھ لیں کہ نشہ کی بیماری میں مریض جسم کی وجہ سے نشہ نہیں سکتا اور دماغ کی وجہ سے نشہ چھوڑ نہیں سکتا۔ مریض ان دو پاٹوں کے بیچوں بیچ پس کر رہ جاتا ہے۔ چونکہ مریض اس بات سے لا علم ہوتا ہے کہ وہ اب پہلے کی طرح کنٹرول کے ساتھ نشہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ اپنی سی کوشش جاری رکھتا ہے۔ اسے ایک اور انداز میں ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ نشے کا مریض اس بیمار انسان کو کہتے ہیں جو منشیات کے ساتھ نبھا نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی اس کے استعمال سے باز نہیں آتا وہ بے بسی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا خود پر اختیار نہیں رہتا۔ وہ نشے سے سکھ نہیں پاتا لیکن اس آس پر نشہ کرتا رہتا ہے کہ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح وہ نشے کا “وہ مزہ” پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

ڈاکٹر صداقت کچھ کہتے ہیں

اب ہم جان چکے ہیں کہ نشے کی بیماری میں جسم نشے کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر نشہ کرنے والا نشے کی بیماری میں مبتلا ہو لیکن آج تک یہ بھی کوئی نہیں جان سکا کہ نشے کی بیماری کا آغاز کب ہوتا ہے؟ اور نہ ہی نشہ کرنے کا کوئی محفوظ طریقہ ابھی تک دریافت ہو سکا ہے۔ اسی وجہ سے نشے کو دائمی بنیادی، بڑھنے والی اور جان لیوا بیماری کہا جاتا ہے۔ اسے ذیابیطس سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ جسے “خاموش زہر” کہتے ہیں کہ نشہ بھی ذیابیطس کی طرح خاموشی سے جسم میں نشوونما پاتا رہتا ہے اور جب تک اس کے اثرات سامنے آتے ہیں تب تک مرض جسم میں اپنی جگہ بنا چکا ہوتا ہے۔ تاہم جو بات اہم اور یاد رکھنے کی ہے۔ وہ یہ کہ نشہ بے شک خود اختیار کردہ بیماری سہی لیکن اس کا مریض بھی دوسرے امراض کے مریضوں کی طرح توجہ اور مدد کا طلب گار ہوتا ہے اور یہ بھی مت بھولئے کہ نشے کی بیماری قابل علاج ہے۔