ہم نشے میں کیسے مدد کرتے ہیں؟

مریض کی خود فریبی

نشے کے علاج میں سب سے بڑی رکاوٹ نشے کے مریض کی خود فریبی ہے۔ اس خود فریبی کا شکار مریض کا متاثرہ خاندان بھی ہوتا ہے۔ جن کا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ ان کا لعل نشے کا مریض بن چکا ہے۔ وہ اسے بس اخلاقی برائی ہی سمجھتے ہیں۔

اہل خانہ اور مریض

تاہم ایک اور خود فریبی وہ رویے ہیں جن کی بدولت اہل خانہ نشے کے مریض کو نشہ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اہل خانہ اپنے خاص جذباتی رشتے کی وجہ سے مریض سے خصوصی رعایت اور نرمی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

اہل خانہ کی مہربانی

ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر نشہ چھوڑ دے۔ اہل خانہ کی مہربانیوں کی وجہ سے مریض کو حالات بالکل نارمل نظر آتے ہیں لہذا وہ نشہ جاری رکھتا ہے۔ یہ صورت حال معاونت کہلاتی ہے۔ معاونت کرنے والے نہیں جانتے کہ وہ لاشعوری طور پر مریض کو نشہ کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔

یادرکھیے! مندرجہ ذیل روئیے معاونت کے زمرے میں آتے ہیں۔

مریض کی جگہ اس کی ذمہ داریاں نبھانا، لوگوں کے سامنے بہانے کرنا، اس کی بیماری کو راز بنانا اور ایسے موقعوں پر مریض سے دور رہنا جب نشے کے استعمال کی وجہ سے اسے شرمندگی کا سامنا ہو۔

مریض کو نشے کر لیے رقمیں فراہم کرنا، اس کے کیے ہوئے نقصانات بھرنا، اس کے قرض چکانا، غیرقانونی حرکات کرتے ہوئے جب مریض پکڑا جائے تو اسے فوری طور پر رہائی دلانا۔

مریض کی حفاظت

مریض کے نشہ کرنے کے جواز تسلیم کرنا اور اس کے نشے کا الزام دوسرے لوگوں یا حالات پر دینا۔ جب مریض نشے میں دھت ہو تو اس کی حفاظت کی خاطر چوکیداری کرنا۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب معاونت سے حالات اور بگڑ جاتے ہیں تو اکثر اہل خانہ اشتعال میں آ کر سختیاں کرنے لگتے ہیں۔ جس کے نتائج ایک مرتبہ پھر معاونت کی صورت میں ہی نکلتے ہیں۔ یعنی مریض نشہ چھوڑنے کی بجائے ناصرف زیادہ نشہ کرنا شروع کردیتا ہے بلکہ اپنے آپ کو حق بجانب بھی تصور کرنے لگتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ نرمی ہو یا سختی، دونوں روئیے مریض کو نشہ کرنے سے روکتے نہیں بلکہ اسے مزید نشہ کرنے کی راہ ہموار کر کے دیتے ہیں۔ اس کے لیے صرف اصلاحی رویے ہی کام آتے ہیں۔