Link-14

چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بناڈالا

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا……جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

پپو دروازے کو جھٹک کر کھولتاہے اور بجلی کی مانند باہر نکل جاتاہے۔ وہ پیچھے مڑے بغیر تیز تیز قدموں کے ساتھ چلنا شروع کر دیتاہے۔ میکڈونلڈز ریسٹورنٹ سے چند قدم آگے ڈیمونٹ مورنسی کی عمارت کے سامنے ایک چھوٹی سی دیوار پر بیٹھ جاتاہے۔ اُس کی آنتیں قل ھو اللہ پڑھنے لگتیں ہیں۔ اُسے وقت کے بھاری پن کا احساس ہونے لگتاہے۔

نیلے رنگ کی ہنڈا سِوک پپو کے قریب آکر رُکتی ہے۔ اُس میں بیٹھا ہوا جوان آدمی کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتاہے۔ وہ ایک معتبر شخص معلوم ہوتا ہے۔ وہ پپو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیکن پپو اُسے نظرانداز کر دیتا ہے۔ وہ پپو کو دوبارہ بلاتا ہے لیکن اس دفعہ پپو دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ مایوسی کے عالم میں وہ رفو چکر ہوجاتا ہے۔

اس دوران کئی گاڑیاں پپو کے پاس سے گزر تی ہیں، گاڑیوں میں اکثر ادھیڑ عمر سوار نظر آتے ہیں۔ جب پپو اُ ن سے بے توجہی برتتا ہے تو وہ ایک لمحے کے لیے انتظار کرتے ہیں اور پھر روانہ ہوجاتے ہیں۔پپو تصور کرتا ہے، بر گر کی دکان پر بچہ نے دس منٹ میں پانچ سو روپے کما لئے تھے۔ پپو دس منٹ کی خستہ حالی کا کسی ہوٹل کے کمرے میں تمام رات سونے سے موازنہ کرتا ہے۔

کسی بھی اُدھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ رات گزارنے کا خیال اُسے بیزار کر دیتا ہے لیکن پپو ان لوگوں کو منفی انداز میں جواب دیتا ہے۔ پپو جانتا ہے کہ جب تک وہ یہاں پر بیٹھا رہے گا وہ لوگ آتے رہیں گے اور اس کے کسی بھی گاڑی میں بیٹھنے کے امکانات روشن ہورہے ہیں لیکن وہ ہمیشہ کی طرح انہیں نظرانداز کرتا ہے۔ اگر وہ مسلسل یہاں بیٹھا رہا تو جلد یا دیر سے بھوک، تھکاوٹ اور مایوسی کے عالم میں کسی بھی گاڑی میں سوار ہو سکتا ہے۔ اور پھر۔۔۔

اس سے پہلے کہ پپو کو کوئی پچھتاوا ہو اس نے بہتر سمجھا کہ وہ اس جگہ کو خیر باد کہہ دے۔ اضطراب کے عالم میں پپو ایک چھوٹی سی گلی میں پیدل چلنا شروع کر دیتا ہے۔

پپو ایک بے یار و مددگار شخص کی تصویر بنا ہوا ہے، وہ بھوک سے نڈھال ہوتا ہے اور جیب میں ایک پائی بھی نہیں ہوتی۔ لوگ پپو کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں۔ کیا وہ اُس ٹی وی کمرشل کا تصور کر سکتا ہے جس میں افریقہ میں رہنے والا ایک سولہ سالہ لڑکا بھوک سے نڈھال موت کی آغوش میں ہے اور اس کا چہرہ مکھیوں اور مٹی سے بھرا پڑا ہے۔ تب ایک سفید فام ادھیڑ عمر شادی شدہ شخص جو کہ ریلیف ورکر ہے ایک ہاتھ چاول کی پیالی لیے نظر آتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے اس کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

’’ تو تمہیں کھانا چاہئیے !‘‘
’’کیا تم جانتے ہواُس کیلئے تمہیں کیا کرنا ہے؟‘‘
یہ ایک کائناتی اُصول ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ پاکستان ہے اور بھوکا نوجوان پپو فیصل آبادی ہے۔
صبح کے تقریباً تین بج چکے ہیں۔مختلف نوعیت کے جوڑے ایک سٹور کے سامنے سگریٹ لیتے ہوئے پپو کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اُسے کوئی کام کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پپو اُن کو جواباً چِلّا کر کہتا ہے کہ درحقیقت وہ پہلے ہی
’’ کام‘‘ کو مسترد کر چکا ہے۔

ایک اسّی سالہ بڑھیا سبز رنگدار لباس میں سٹور سے باہر نکلتی ہے اور پپو سے بات کرنے کے لیے رُکتی ہے۔
’’ہائے رے تمہاری قسمت !‘‘
’’بیٹے! تم اتنے سہمے ہوئے کیوں ہو؟‘‘
’’اپنے آپ کو سنبھالو اور کام کرو‘‘
’’محنت کرو اور پھر اس کا پھل کھاؤ‘‘اُس نے مزید کہا۔

’’صبح کے تین بج چکے ہیں‘‘ وہ پپو کو وقت کا احساس دلاتی ہے۔
پپو اپنا اُترا ہوا چہرہ ملتے ہوئے کہتا ہے ’’آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتیں‘‘
’’میں کیا نہیں جانتی؟‘‘ وہ کہتی ہے۔
’’زندگی کے مواقع سے فائدہ ضروری اُٹھانا چاہیے ‘‘

پپو کی آنکھیں امید کی کرن دیکھ کر چمک اُٹھتی ہیں۔
اُف میرے خدایا! آپ ٹھیک کہتی ہیں۔
’’کیا شاندار لیمونیڈ ہے!‘‘
’’میں آپ کا کیسے شکریہ ادا کروں؟‘‘

ارے واہ! وہ زوردار طریقے سے کہتی ہے۔
’’تم طعن و طشنیہ سے کیوں باز نہیں آتے؟
’’میں جو کہتی ہوں وہ کر گزرتی ہوں‘‘۔

’’میرے والد صاحب 1947ء میں کشمیر کی جنگ میں وفات پاگئے۔ میں انہیں کبھی بھلا نہ پاؤں گی کیونکہ اُن سے میرا خصوصی لگاؤ تھا۔ احساسِ بے چارگی میں جوان ہوئی۔ 1965ء کی جنگ میں خاوند کو بھی کھو دیا۔ تنہائی کے عالم میں بیٹیوں کی پرورش کی، جس میں سے ایک23 سال کی عمر میں چھوڑ گئی۔ اگر کسی کو گلہ شکوہ کرنا چاہئے تو وہ میں ہوں۔ مجھے زندگی میں حوصلہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ملا‘‘۔

پپو بھیک مانگنا چھوڑ دیتا ہے اور سٹور کے پیچھے ایک گندگی کے ڈھیر سے کچھ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اس سے دودھ کی بدبو آ رہی تھی۔ سب سے اوپر اُسے پیزا کا ڈبہ نظر آتا ہے ا ور اس کے اندر ’’پیزا‘‘ کے پس خوردہ تازہ ٹکڑے ہیں۔ پپو انہیں کھاتا ہے اور چھوٹی سی دیوار پر بیٹھ جاتا ہے۔ ’’کیا یہی میری زندگی ہے؟ دوسرے لوگ پیزا کھائیں اور میں اُن کے پس خوردہ ٹکڑوں پر گزارا کروں۔‘‘

پپو تھک ہار کر چکنا چور ہوجاتاہے ، اُس کے جسم سے ٹیسیں اُٹھنے لگتیں ہیں ، وہ درد سرسے کراہتاہے۔ پپو پر نیند کا غلبہ اتنا ہے کہ اسے بھوک پس منظر میں جاتی ہوئی محسوس ہوتی۔ سچ ہے نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔ نیند بھری آنکھوں کے ساتھ وہ آناً فاناً دیوار کی ٹھنڈی اینٹ پر اونگنے لگتا ہے۔

’’تم مجھے اجنبی لگتے ہو!‘‘ایک بوڑھے شخص نے اپنی کارکا شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا۔’’اوہ! تم کب سے نہیں سوئے؟‘‘

کب سے نہیں سوئے؟‘‘
تم جیسے نوجوان بچے کا اس طریقے سے سونا مناسب نہیں۔ اس بڑی عمارت سے آگے ایک ہوٹل ہے۔ میں وہاں کوئی کمرہ دیکھتا ہوں۔
وہ گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے اور اس گلی سے ہر صورت جانا چاہتا ہے۔ پپوسوچتاہے ، ’’کہ شاید وہ اچھا انسان ہے ، شاید یہ خیال غلط ہو لیکن میرے بارے میں بہت فکر مند نظر آتاہے۔

وہ کمرے کا کرایہ دیتا ہے دروازہ کھولتا ہے اور غسل خانے چلا جاتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ’’نیک آدمی ‘‘ بغیر کپڑے پہنے باہر آجاتا ہے۔ وہ بہت پُراسرار نظر آتاہے ۔ پپو کو واضح نظر آتا ہے کہ اُس کے ساتھ کوئی برا کام ہونے والا ہے۔ پپو کوئی مذاحمت نہیں کرتا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ پپو کوچھچھوری ہڈی کی طرح پرے پھینک دیتا ہے۔ پپو خود کو پراگندہ محسوس کرتا ہے اور صاف ستھرا ہونا چاہتا ہے۔ غسل خانے میں جانے کی باری اب پپو کی تھی ۔ واپسی پر اسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوتی ہے۔ وہ ذہنی طو ر پر اتنا پریشان ہوتا ہے کہ رات کو اُسے نیند نہیں آتی۔کروٹیں بدلتے بدلتے وہ نیند کی آغوش میں چلاجاتا ہے۔

اتنی دیر میں فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ پپو کو اندازہ ہوتا ہے کہ دوپہر کے دو بجے ہیں لیکن ابھی اُس کی نیند ادھوری ہے اور وہ ایک اورمکمل دن بھی سو سکتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اُسے جانا ہوگا۔

پپو تیز دھوپ میں دوپہر کو پھر گلی میں چل پڑتا ہے اور تیکھی نظروں سے گہما گہمی سے بھرپور ایک قصبے کا نظارہ کرتا ہے۔ ہر طرف تیزی سے چلتی ہوئی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ لوگ سٹورز میں جلدی جلدی آ رہے ہیں اور تیزی سے باہر نکل رہے ہیں۔ پپو بدحواس ہے اور آہستہ آہستہ پیدل چل رہا ہے۔ اُس کا لباس متعفن ہے۔ اب وہ کیا کرتا۔اُسے خیال آتا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنے کپڑے ہوٹل میں دھو کر خشک کرلیتا لیکن اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا، وہ خود کو کوستا ہے، بدبخت ، تیرے ساتھ ’’یہی ہونا تھا‘‘۔
بھوک کے مارے وہ نڈھال ہوجاتا ہے۔ پپو خیال کرتا ہے ’’ لوگ روزانہ کیوں کھاتے ہیں؟ وہ گاڑیوں کی طرح ہفتہ میں ایک دفعہ ہی پیٹ کیوں نہیں بھرلیتے؟‘‘

پپو خواہش کرتا ہے کہ کاش اُسے ایسا ساتھی مل جائے جو اس سے پرانی فلموں، کھیلوں اور خبروں سے متعلق باتیں کرے اور اس کاساتھ دے۔اسی اثناء میں ایڈز کی بیماری کے متعلق ہدایات اور ایچ آئی وی کی تربیت دینے والے کونسلرز رونما ہوتے ہیں۔ دونوں کونسلر پپو کو ایک کونے میں لے جاتے ہیں اور ایڈز کے بارے میں ڈرا دینے والی تفصیلات بتانے لگتے ہیں۔

کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ پپو کے نزدیک آکر اپنا تعارف جاوی اور سلیم کے نام سے کرواتے ہوئے اور گویا ہوتے ہیں،’’ مرکز سے آئے ہیں اور ہم جنس پرستوں کو ایڈز کے بارے معلومات دینا چاہتے ہیں‘‘ اتنی دیر میں جاوی پپو کو پیکٹ دیتی ہے۔

پپو غصے میں چلاتا ہے کہ کیا وہ انہیں ہم جنس پرست نظر آتا ہے اور پیکٹ کو اٹھا کر زور سے زمین پر دے مارتا ہے۔

جاوی کہتی ہے ، ’’ایڈز میں مبتلا ہونے کیلئے ہم جنس پرستی ضروری نہیں‘‘۔

پپوانہیں چلے جانے کیلئے کہتاہے اور وہ رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ ایک گاڑی وہاں آکر رُکتی ہے اور ایک بوڑھا شخص جھک کر بڑے اشتیاق کے ساتھ کھڑکی سے باہر جھانکتا ہے۔ پپو دروازے پر ٹھوکر مارتا ہے اور چلاتا ہے، میری نظروں سے دور ہوجاؤ۔ کار تیزی کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ کچھ فاصلے پر پپو ہی کی عمر کا ایک نوجوان جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا نوجوان وہیں کھڑا رہتا ہے۔ پپو گزرتے ہوئے اس پر ایک نظر ڈالتا ہے ۔ وہ نوجوان شراب کے نشے میں دھت نظر آتا ہے۔

پپو ایک دوکان کے سامنے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ چند گھنٹوں میں وہ اتنے پیسے اکٹھے کرلیتا ہے کہ برگر اور فرائزلے سکے، اس کے باوجود اس کے پاس اتنے پیسے بچ گئے ہوتے ہیں جن سے وہ ایک فلم دیکھ سکتا ہے۔ فلم کے دوران وہ سو جاتا ہے، روشنیاں جلنے پر اُس کی آنکھ کھل جاتی ہے، وہ دوبارہ گلی میں چلنے لگتا ہے، جلد ہی اسے بھوک لگ جاتی ہے۔ ابھی اس کے پاس اتنے پیسے ہو تے ہیں کہ وہ بریانی کی پلیٹ کھاسکے۔

موسلا دھار بارش ہونے لگتی ہے اور اس کے ذہن میں شراب کے نشے میں دھت نوجوان کی تصویر ابھی تک گردش کر رہی ہوتی ہے۔ وہ اسی عمارت کے قریب دیوار پر بیٹھ کر کسی گاڑی کے آنے کا انتظار کرتا ہے۔
اس کو کوئی راہ سُجھائی نہیں دیتی۔ وہ باقاعدہ بھکاری بن جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لنک-22 پر جائیے۔
پپو شراب کے نشے میں دھت ہو جاتا ہے تاکہ وہ جوبھی گندہ کام کرنا پڑے اسے رکاوٹ نہ ہو اور جلدی سے کچھ روپے حاصل کر سکے اور پھر کسی ہوٹل میں چلا جائے۔

لنک-23 پر جائیے۔